1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پاکستانی سیاسی سیب اور عسکری مالٹے‘

2 ستمبر 2020

ایک منظم طریقے سے یہ بات پھیلائی جا رہی ہے کہ منی ٹریل مانگنے سے ملکی سالمیت کو خطرہ ہے۔ جناب والا یہ خطرہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی بار کہاں جاتا ہے، اس خطرے کو منتخب وزیراعظم کی بار کیوں سانپ سونگھ جاتا ہے؟

https://p.dw.com/p/3htS1
Sumaira Rajput
تصویر: Privat

کوئی ہمیں بھی تو بتائے یہ خطرہ جامع کیوں نہیں، یہ خطرہ ریاست کو ہے یا ریاست میں موجود ان 'افراد' کو جو خود 'ریاست' ہیں۔ نہ تو سقوطِ ڈھاکا سے ملکی سلامتی داؤ پر لگی، نہ ہی اپنی فضائی حدود اور ائیر بیس امریکا کے حوالے کرنے سے ملکی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہوا، نہ ہی امریکی ڈرونز حملوں کے نتیجے میں ملکی خود مختاری اور سالمیت پر کوئی آنچ آئی، نہ تو ایبٹ آباد آپریشن سے ہمارے ملکی وقار اور عزت پر کوئی آنچ آئی، ہاں! لیکن اگر کوئی صحافی کسی بڑے فوجی افسر کی غیرملکی جائیدادوں اور کاروبار کی تفصیلات سامنے لا کر ان کا جواب مانگے تو اس صحافی کے اس عمل سے نہ صرف سی پیک اور ملکی سلامتی داؤ پر لگ جاتی ہے بلکہ اس صحافی کو غدارِ وطن اور بھارتی ایجنٹ بھی ثابت کیا جاتا ہے۔

اگر ملک کا وزیر اعظم اپنے سپوت سے تنخواہ نہ لے تو وہ نا اہل کر دیا جاتا ہے اور اگر 'اہل کرم‘ کی لمبی چوڑی جائیدادیں بھی سامنے آجائیں تو وزارت اطلاعات بھیگی بلی کی طرح ٹویٹ کر دیتی ہے کہ جناب 'پاپا جونز‘ والے عنقریب وضاحت دیں گے۔ جس بھاؤ میں تین لاکھ کی پراڈو آئی، اسی بھاؤ میں کمپنیوں کے شیئر نکل آئیں گے اور ملکی سالمیت جو آج کل داؤ پر لگی ہوئی ہے، بچ جائے گی۔

اگر وضاحت پر ہی یقین کر لینا ہے تو پھر نواز اور زرداری کی وضاحت پر کیوں یقین نہیں کیا گیا؟ جسٹس فائز کی وضاحت پر بھی یقین کرنا چاہیے تھا۔ اور اگر وزارت اطلاعات کی بات مانتے ہوئے وضاحت پر ہی یقین کرنا ہے تو پاکستان میں موجود عدالتوں کے قیام کا مقصد ہی ختم ہو جاتا ہے۔ آیا اس قسم کے عمل کے ذریعے ایک نئے طوفان کو تو ہوا نہیں دی جا رہی؟ زہرہ نگاہ صاحبہ کہتی ہیں کہ سنا ہے 'جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے، سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا‘

لیکن یہاں تو دستور یہ ہے کہ وزارت اطلاعات والے فراز صاحب سے جب صحافی نے سوال کیا کہ اجمل وزیر کو آڈیو ٹیپ پر ہٹا دیا تھا تو یہاں وہ اصول لاگو نہیں ہوتا؟ جس پر فراز بولے،'سیب کو مالٹوں کے ساتھ مکس نہ کریں، سیب کو سیب رہنے دیں۔‘

یہ بھی پڑھیے: 

طاقتور ترین ممالک میں بھی کرپشن بڑھ گئی، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل

افریقہ کی امیر ترین خاتون کے اثاثے ضبط کر لیے گئے

حضور والا سر تا پا احتساب کرنے والے الزامات کی بنیاد پر ہی تو کارروائیاں کرتے ہیں۔ جب الزامات کی بنیاد پر 'سیبوں‘ کو حراست میں لے کر ان کا سرتاپا احتساب کیا جا رہا ہے تو 'مالٹے‘ کے معاملے میں سُستی کیوں دکھائی جا رہی ہے؟ ریاست مدینہ میں تو عوام اور حکمران دونوں کیساتھ ایک جیسا انصاف ہونا تھا، یا ایک نئے طرز کی ریاست مدینہ بنا لی گئی ہے؟

دعویٰ تو یہ بھی کیا گیا تھا کہ ریاست مدینہ میں اگر کسی پر الزام ہوا تو اس کی تنخواہ کو ملازمت کی مدت سے ضرب دیں گے اور اگر اس کے اثاثے زائد ہوئے تو ضبط کر لیے جائیں گے۔ سوال صرف اتنا ہے کیا اب سر تا پا منی ٹریل مانگا جائے گی یا 'پاپا جونز' کی جانب سے وضاحت کافی ہو گی۔ وضاحت آ بھی گئی تو امید ہے کہ عوام کو سیب اور مالٹوں کے ایک نئے بھاؤ تاؤ میں الجھا دیا جائے گا۔