1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی حکومت کے تہرے مسائل، گیلانی کو عدالتی نوٹس

16 جنوری 2012

پاکستانی حکومت کو آج شديد نوعیت کی عدالتی کارروائيوں کا سامنا ہے۔ عدالت ميں حکومت پر عائد دو مقدمات کی آج سماعت کے نتيجے ميں قيادت کے حکومت سے محروم ہو جانے اور قبل از وقت انتخابات کی راہ ہموار ہونے کا بھی امکان ہے۔

https://p.dw.com/p/13kBp
تصویر: Abdul Sabooh

سپريم کورٹ کے جج خاص طور پر صدر زرداری کے خلاف ايک عرصے سے جاری سوئس کرپشن کيس کی سماعت کر رہے ہيں اور ايک ہائی کورٹ کميشن اُس اسکينڈل کی تحقيقات کر رہا ہے جو ميمو گيٹ کے نام سے مشہور ہو چکا ہے۔ ميمو گيٹ کيس کی بنياد امريکہ ميں پاکستان کے سابق سفير حسين حقانی کی جانب سے مبينہ طور پر امريکی فوج کو بھيجا جانے والا ايک خط ہے، جس ميں مبينہ طور پر امريکی خفيہ فوجی دستے کی جانب سے اسامہ بن لادن کو ہلاک کيے جانے کے بعد ممکنہ فوجی بغاوت کو روکنے کی درخواست کی گئی تھی۔

ہائی کورٹ کا يہ کميشن 30 دسمبر کو قائم کيا گيا تھا۔ وہ آج حکومت کے دلائل سنے گا اور اس ماہ کے آخر ميں يہ فيصلہ کرے گا کہ کيا امريکی فوج کے نام يہ مبينہ مراسلہ حکومت کی رضامندی سے بھيجا گيا تھا۔ پاکستان کے اٹارنی جنرل نے آج پیر کے روز کہا کہ کميشن کو اس سلسلے ميں ايک بہت اہم ثبوت نہيں ملا ہے، جو بليک بيری موبائل فون کے ذريعے حسين حقانی اور ايک پاکستانی نژاد امريکی تاجر منصور اعجاز کے درميان پيغامات کے تبادلے پر مشتمل ہے۔ اعجاز نے پچھلے اکتوبر ميں ايک اخباری مضمون ميں لکھا تھا کہ انہوں نے حسين حقانی کا پيغام امريکی فوجی حکام تک پہنچايا تھا۔ اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق نے اسلام آباد ميں ہائی کورٹ کو رپورٹ دی کہ بليک بيری فرم نے يہ معلومات فراہم نہيں کی ہيں اور منصور اعجاز کے بارے ميں اُنہيں کوئی اطلاع نہيں ملی ہے۔

وزير اعظم گيلانی
وزير اعظم گيلانیتصویر: picture-alliance/dpa

پاکستانی سپريم کورٹ آج اس پر غور کر رہی ہے کہ صدر زرداری اور دوسرے پارليمانی اراکين کے خلاف کرپشن کے الزامات پر تحقيقات کس طور پر جاری رکھی جائے۔ زرداری اور اراکين پارليمان کا دعوٰی ہے کہ انہيں تعزيراتی کارروائی کے خلاف تحفظ حاصل ہے۔ پچھلے ہفتے ايک چھوٹے پينل کے فيصلہ کرنے ميں ناکام ہونے کے بعد آج ايک بڑا بينچ اس کيس کے امکانات پر غور کر رہا ہے، جن ميں وزير اعظم کی ممکنہ برطرفی اور نئے انتخابات کے انعقاد کا امکان بھی شامل ہيں۔

آج پیر کی سہ پہر پاکستانی قومی اسمبلی ميں ملک کی مخلوط حکومت ميں شامل ايک چھوٹی پارٹی کی طرف سے پيش کی جانے والی ايک قرارداد پر رائے شماری ہو رہی ہے، جس کا مقصد طاقتور فوج اور سول حکومت کے درميان جاری چپقلش ميں حکومت کی پوزيشن کو بہتر بنانا ہے۔ فوج اور حکومت کے درميان کشيدگی پچھلے ہفتے اُس وقت اور شديد ہو گئی تھی جب وزير اعظم يوسف گيلانی نے فوج پر الزام لگايا تھا کہ اُس نے ميمو گيٹ کميشن کو اپنے بيانات حکومت کے توسط سے نہيں بھيجے۔ اس کے بعد وزير اعظم نے وزارت دفاع کے سیکرٹری کو بھی برطرف کر ديا تھا، جن کے فوجی قيادت کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔

جنرل کيانی اور آئی ايس آئی کے سربراہ جنرل پاشا
جنرل کيانی اور آئی ايس آئی کے سربراہ جنرل پاشاتصویر: dapd

سياسی اور دفاعی تجزيہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فوج کو اقتدار کی کوئی طلب نہيں ہے اور وہ قانونی ذرائع سے کام ليتے ہوئے حکومت کو ہٹانا چاہتی ہے۔ اب وزير اعظم گيلانی کشيدگی کم کرنے کی کوشش کر رہے ہيں اور اُنہوں نے کہا ہے کہ پاکستانی فوج ملک کی قوت اور مضبوطی کا ستون ہے اور قوم ملک کے دفاع کے ليے اُس کی خدمات کو خراج تحسين پيش کرتی ہے۔تازہ ترين اطلاعات کے مطابق پاکستانی سپريم کورٹ نے کرپشن کے کيس کی سماعت کے دوران وزير اعظم يوسف رضا گيلانی کو کرپشن کيس کی سماعت دوبارہ شروع کرنے کے احکامات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے توہين عدالت کا مرتکب قرار ديا ہے اور کورٹ نے وزير اعظم کو اسی ہفتے ذاتی طور پر عدالت ميں پيش ہونے کا حکم بھی جاری کر ديا ہے۔

رپورٹ: شہاب احمد صديقی / خبر رساں ادارے

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں