پاکستانی بنگلہ دیشی قربت، جنوبی ایشیائی سیاست میں نیا موڑ
29 دسمبر 2024ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی پاکستانی بنگلہ دیشی قربت خطے میں نئی سیاسی صف بندیوں کی راہ ہموار کر سکتی ہے جبکہ علاقائی سطح پر بھارت کے سیاسی وزن کے مقابلے میں یہ دوطرفہ تعاون خطے میں ایک متوازن اور مربوط حکمت عملی کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔
اسٹریٹیجک اہمیت
تجزیہ کار طلعت مسعود نے اس موضوع پر ڈی ڈبلیوسے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش تاریخی، سیاسی اور کئی دیگر حوالوں سے ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ کئی برسوں تک وہ ایک ہی ملک تھے۔ اگرچہ بنگلہ دیش نے پاکستان سے علیحدگی اختیار کی، تاہم دونوں ممالک کے عوام اب بھی ایک دوسرے کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔
طلعت مسعود نے کہا، ''ماضی کے بہتر تعلقات دوبارہ بحال ہو سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر ایسی مشترکہ پالیسیاں تشکیل دی جا سکتی ہیں، جو دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گی۔ یہ تبدیلی دونوں ممالک کے عوام کے لیے بھی ایک مثبت پیش رفت ہے، جس سے انہیں کئی متنوع حوالوں سے فائدہ پہنچ سکتا ہے۔‘‘
بنگلہ دیش: بھارت سے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ
بھارتی پالیسیوں کے خلاف اتحاد
بنگلہ دیشی دارالحکومت کی ڈھاکہ یونیورسٹی کے سابق ڈین، پروفیسر ڈاکٹر شاہد زمان کہتے ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کو ہی بھارتی حکومت کی پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے قریبی باہمی تعلقات کو دوبارہ زندہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ''موجودہ صورت حال 1947ء سے پہلے کے حالات کی یاد دلاتی ہے، جو دو قومی نظریے کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتی ہے۔ بنگلہ دیش کو بھارتی غلبے سے بچنے اور اپنی خود مختاری کے تحفظ کے لیے پاکستان کے ساتھ سکیورٹی تعلقات مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘
بھارت: پاکستانی فوج کے 'ہتھیار ڈالنے' والی پینٹنگ پر تنازعہ کیا ہے؟
بنگلہ دیش میں اسی سال عوامی لیگ کے دور اقتدار کے خاتمے کے تناظر میں پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے اسکول آف پولیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر محمد ندیم مرزا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان نے شیخ حسینہ کے دور کے بعد کے بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے تعلقات میں بڑی احتیاط برتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نہیں چاہتا تھا کہ اس کے بنگلہ دیش سے متعلق کسی بھی کم محتاط قدم سے بھارت یا وہاں پناہ لینے پر مجبور ہو جانے والی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو کوئی سیاسی فائدہ پہنچے۔
وسطی ایشیا کا دروازہ
بنگلہ دیش کی جہانگیر نگر یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر شہاب انعام کے بقول بنگلہ دیش کو سکیورٹی یا فوجی تعاون کے بجائے اقتصادی شراکت داری کو ترجیح دینا چاہیے۔ اپنے اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے پروفیسر شہاب انعام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ڈھاکہ کو دراصل پاکستان کی وسطی ایشیا تک رسائی کی صلاحیت کو تسلیم کرتے ہوئے پاک چین اقتصادی راہداری کے ساتھ اس کی صف بندی میں شامل ہونا چاہیے۔
تنہا ہوتا ہوا بھارت
پروفیسر شاہد زمان کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش علاقائی سطح پر تو خطے کے ممالک کی تنظیم سارک کی بحالی کی حمایت کرتا ہے تاہم وہ بھارت کی طرف سے ''سبوتاژ کی کوششوں‘‘ سے آگاہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے درمیان شپنگ لائنز کا قیام خطے کی بڑھتی ہوئی خود مختاری کی علامت ہے۔ مزید یہ کہ چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اثر و رسوخ اور بیجنگ کے پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا کے ساتھ تعلقات بھارت کو علاقائی سطح پر تنہا کرتے جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر محمد ندیم مرزا کے بقول بھارت پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے، مگر موجودہ حالات میں یہ کوششیں کامیاب نہیں ہو رہیں اور پاکستان کے بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات بڑے دوستانہ ہیں۔
بنگلہ دیش میں الیکشن اگلے سال کے آخر تک ہو سکتے ہیں، یونس
ماضی کی تلخیاں بھلانا ضروری
طلعت مسعود کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کے وقت پیدا ہونے والی تلخیاں بڑی گہری تھیں اور ان سے بے شمار لوگ متاثر ہوئے تھے۔ تاہم ان تلخیوں کا باقی رہنا دونوں ممالک کے لیے نقصان دہ ہے، ''کیونکہ یوں نہ تو ان ممالک کے عوام کو کوئی فائدہ ہو گا، نہ ہی ان کی حکومتوں کو، اور نہ ہی اس پورے خطے کو۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ موجودہ نسل ان تلخ واقعات کی ذمہ دار نہیں، ان تلخیوں کو یاد کرنا اب بے معنی ہے۔ دونوں ملکوں کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ اپنی اپنی سماجی اور معاشی حالت بہتر اور اپنے باہمی تعلقات کو مضبوط بنائیں۔
بنگلہ دیش: بھارت فرار ہونے کے بعد شیخ حسینہ کا پہلا عوامی خطاب
اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے ڈاکٹر محمد ندیم مرزا کہتے ہیں کہ تاریخ کسی بھی بڑے واقعے کے صرف کسی ایک فریق کے دعووں پر مبنی نہیں ہو سکتی اور اس کو مٹانا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا، ''بنگلہ دیشی عوام کا ایک بڑا حصہ مانتا ہے کہ ماضی پر نظریں گاڑے رہنے کے بجائے مستقبل کی طرف دیکھنا ہی وقت کا تقاضا ہے۔ اس لیے کہ فی زمانہ بنگلہ دیش اور بھارت کے مابین کئی طرح کے مسائل ہیں۔‘‘
بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتی کشیدگی
علاقائی استحکام کے لیے تعاون
پاکستان اور بنگلہ دیش کی ایک دوسرے کے ساتھ قربت خطے کے لیے کس طرح معاون ثابت ہو سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ شمسہ نواز کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اور ڈھاکہ ایک دوسرے کے قدرتی شراکت دار ہیں، جنہوں نے پہلے برطانوی حکمرانی کے خلاف ایک قوم کے طور پر متحد ہو کر جدوجہد کی۔ پھر 1971ء میں بنگلہ دیش کی آزاد ریاست وجود میں آئی تو پاکستان نے اس کی آزادی اور خود مختاری کو تسلیم کیا۔
کئی دہائیوں بعد پاکستان سے براہ راست کارگو جہاز بنگلہ دیش میں
شمسہ نواز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '’ان دونوں ممالک نے جنوبی ایشیا میں ترویج امن کے لیے سارک کے پلیٹ فارم سے بھی مل کر کام کیا ہے اور دونوں ہی اسلامی تعاون کی تنظیم کے رکن بھی ہیں۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو میں شمولیت کے بعد دونوں ہی اقتصادی تعاون کی طرف بڑھ رہے ہیں، جس سے ان کی مجموعی حالت بہتر ہو گی۔‘‘
جہانگیر نگر یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر شہاب انعام یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کو ماضی کی کڑواہٹ بھلا کر اقتصادی تعاون اور مشترکہ مفادات کو ترجیح دینا چاہیے۔ انہوں نے دلیل دیتے ہوئے کہا، ''1971ء کے واقعات کو سیاسی بوجھ کے طور پر نہیں بلکہ تعمیری انداز میں تسلیم کرنا دونوں ہی کے لیے صحت مند تعلقات کی بنیاد مہیا کرے گا۔ اقتصادی شراکت داری سے اسلام آباد اور ڈھاکہ کے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں، جو باہمی احترام کو بھی فروغ دیں گے اور خطے پر مثبت اثرات کی وجہ بھی بنیں گے۔‘‘