1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کسی بھی رجسٹرڈ افغان کو 30 جون تک ڈی پورٹ نہیں کیا جائے گا

7 جنوری 2025

پاکستان کی وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ رجسٹرڈ مہاجرین کو جاری کیے گئے پی او آر کارڈز کی میعاد تیس جون تک بڑھا دی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/4otL0
افغان خاندان اپنے ملک میں داخل ہونے سے پہلے طورخم بارڈر پر امیگریشن کے عمل کی تکمیل کا انتظار کر رہے ہیں
افغان خاندان اپنے ملک میں داخل ہونے سے پہلے طورخم بارڈر پر امیگریشن کے عمل کی تکمیل کا انتظار کر رہے ہیںتصویر: Hussain Ali/ZUMA Wire/IMAGO

آج منگل کو سپریم کورٹ کی آئینی بنچ پاکستان سے افغانوں کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کے خلاف درخواست کی سماعت دوبارہ شروع کرنے والی ہے، ایسے میں وفاقی حکومت نے پاکستانی سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ رجسٹرڈ مہاجرین کو جاری کیے گئے پی او آر(پروف آف رجسٹریشن)  کارڈز کی میعاد تیس جون تک بڑھا دی گئی ہے۔

غیرقانونی افغان مہاجرین کی ملک بدری پرسپریم کورٹ نے کیا کہا؟

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی سات رکنی بنچ مفاد عامہ کی اس درخواست کی سماعت کرے گی، جو 3 اکتوبر 2023 کو اپیکس کمیٹی کے اعلان کردہ بڑے پیمانے پر ملک بدری کے فیصلے کے تناظر میں دائر کی گئی تھی۔ یہ درخواست سول سوسائٹی کے کارکنوں کے اتحاد نے دائر کی تھی۔

پاکستان کی وفاقی حکومت نے، سپریم کورٹ کو یقین دلایا کہ تمام افغان مہاجرین جو پاکستان میں پی او آر یا افغان سٹیزن کارڈ ‍(اے سی سی) کے بشمول کسی بھی شکل میں اپنی رجسٹریشن کے بعد رہ رہے ہیں، ان کو مکمل قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ انہیں پکڑا یا جلاوطن نہیں کیا جائے گا۔

غیر قانونی مہاجرین کے خلاف کریک ڈاون تیز تر کر دیا گیا

پاکستان میں رہنے والے اے سی سی اور پی او آر کارڈ ہولڈز کی تعداد بالترتیب تقریباﹰ تیرہ لاکھ اور سات لاکھ ہے۔

حکومت کی رپورٹ کے مطابق اب تک 784,954 غیر قانونی غیر ملکیوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے
حکومت کی رپورٹ کے مطابق اب تک 784,954 غیر قانونی غیر ملکیوں کو واپس بھیجا جا چکا ہےتصویر: Muhammad Sajjad/AP Photo/picture alliance

تقریباﹰ آٹھ لاکھ غیر قانونی غیر ملکیوں کی ملک بدری

حکومت کی طرف سے پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب تک 784,954 غیر قانونی غیر ملکیوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔

ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ کی جانب سے دائر کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب تک افغان باشندوں سمیت مجموعی طور پر 784,954 غیر قانونی غیر ملکیوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔

رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ غیر قانونی غیر ملکیوں کی وطن واپسی کے منصوبے کے پہلے مرحلے کے آغاز کے بعد سے افغان شہریوں سمیت غیر قانونی غیر ملکیوں کی اکثریت کو واپس بھیجا گیا ہے۔ تاہم، جن غیر ملکیوں کا اندراج کیا گیا ہے، ان کو ملک بدر نہیں کیا جا رہا تھا۔

نومبر 2023 میں، درخواست گزاروں نے اس وقت کے نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کی طرف سے شروع کی گئی غیر قانونی غیر ملکیوں کی وطن واپسی کے حکم پر روک لگانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

درخواست گزاروں کی بنیادی دلیل یہ تھی کہ بڑے پیمانے پر بے دخلی نہ صرف پاکستان کے ملکی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے وعدوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ آئین کے تحت نگراں حکومت کے محدود اختیارات کے دائرہ کار سے بھی باہر ہے۔

ایک آئینی بنچ پاکستان سے افغانوں کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کے خلاف درخواست کی سماعت سات جنوری کو  دوبارہ شروع کرنے والی ہے
ایک آئینی بنچ پاکستان سے افغانوں کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کے خلاف درخواست کی سماعت سات جنوری کو دوبارہ شروع کرنے والی ہےتصویر: Anjum Naveed/AP Photo//picture alliance

پاکستان میں افغان مہاجرین کی صورتحال ابتر، حقوق انسانی گروپ

حقوق انسانی گروپ، افغانستان ہیومن رائٹس ڈیفنڈرز کمیٹی نے ایک بیان میں پاکستان کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کی طرف سے جاری کردہ حالیہ ہدایات کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان میں افغان مہاجرین کی صورت حال کو "بدتر ہوتی ہوئی" قرار دیا ہے اور کہا کہ اس نے ان کی مشکلات کو مزید بڑھا دیا ہے۔

کمیٹی نے پاکستانی حکام کی جانب سے نافذ کیے گئے نئے اقدامات کے نتیجے میں افغان مہاجرین کو درپیش بڑھتی ہوئی ہراسانی، بھتہ خوری اور انتظامی رکاوٹوں جیسے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ "قانونی رہائشی دستاویزات کے بغیر افراد خاص طور پر خطرے میں ہیں"۔ "انہیں پولیس سے بچنے پر غیر رسمی طور پر مجبور کیا جاتا ہے، جس سے ان پر بہت زیادہ نفسیاتی اور مالی بوجھ پڑتا ہے، جس سے وہ اپنے خاندانوں کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔"

کمیٹی نے متنبہ کیا کہ پاکستان کی پالیسیوں سے افغان انسانی حقوق کے محافظوں اور دیگر کمزور گروپوں، خاص طور پر ان لوگوں کو شدید خطرات لاحق ہیں جنہیں ملک بدری کا سامنا ہے۔ کمیٹی کا کہنا تھا کہ ملک بدر کیے گئے افراد کے طالبان کی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھ لگنے کا خطرہ ہے، جس سے ان کی زندگیوں کو مزید خطرہ لاحق ہے۔

کمیٹی نے بین الاقوامی مداخلت کا مطالبہ کرتے ہوئے، عالمی اداروں، انسانی حقوق کے گروپوں اور اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ افغان مہاجرین کو ہراساں کیے جانے، جبری ملک بدری اور اس سے منسلک خطرات سے بچائیں۔

 ج ا ⁄  ص ز ( خبر رساں ادارے)