1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غیرقانونی افغان مہاجرین کی ملک بدری پرسپریم کورٹ نے کیا کہا؟

1 دسمبر 2023

غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی ملک بدری کے خلاف دائر کیس میں پاکستانی سپریم کورٹ نے کہا کہ'یہ آئینی تشریح کا بھی معاملہ ہے۔' عدالت عظمیٰ نے اس کیس میں جمعے کو وفاق، وزارت خارجہ اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کیا۔

https://p.dw.com/p/4ZeaW
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ آئینی حق کی وجہ سے پاکستان میں پیدا ہونے والے بچے کو ملک سے بے دخل نہیں کیا جاسکتا
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ آئینی حق کی وجہ سے پاکستان میں پیدا ہونے والے بچے کو ملک سے بے دخل نہیں کیا جاسکتاتصویر: FAROOQ NAEEM/AFP/Getty Images

پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم دس لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو ملک بدری کی جاری مہم کے درمیان انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے دائر کردہ ایک درخواست پر سپریم کورٹ نے آج جمعے کو سماعت کی۔

درخواست گزاروں میں سے ایک فرحت اللہ بابر نے اپنی دلیل میں کہا کہ نگران حکومت کے پاس غیر قانونی شہریوں کی بے دخلی کا مینڈیٹ نہیں ہے اور جن افغان شہریوں کو بے دخل کیا جا رہا ہے، وہ سیاسی پناہ کی درخواستیں دے چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان افغان شہریوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کررہی ہے۔

فرحت اللہ بابرنے حکومت کے اختیارات کے متعلق پاکستانی آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "نگراں حکومت پالیسی معاملات پر حتمی فیصلہ کرنے کا آئینی اختیار نہیں رکھتی۔"

'پاکستان میں پیدا ہونے والا بچہ پاکستانی شہری'

درخواست گزاروں نے جمعرات کے روز عدالت میں افغان شہریوں کے بچوں کے حوالے سے ایک حلف نامہ بھی دائر کیا ہے۔ جس میں دلیل دی گئی ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والا کوئی بھی بچہ، پاکستان کے شہریت قانون کی دفعہ چار کے تحت پاکستانی شہری ہوتا ہے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ آئینی حق کی وجہ سے پاکستان میں پیدا ہونے والے بچے کو ملک سے بے دخل نہیں کیا جاسکتا۔

افغان مہاجرین کی ملک بدری، پاکستان کے لیے سکیورٹی چیلنج؟

کیس کی سماعت کرنے والی تین رکنی بنچ میں شامل جسٹس عائشہ ملک نے بین الاقوامی قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے معاہدے پناہ گزینوں کے حقوق کو تحفظ دیتے ہیں اور پاکستان اقوام متحدہ کے ان معاہدوں کا پابند ہے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے وفاق، ایپکس کمیٹی، وزارت خارجہ اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ 'غیر قانونی افغان شہریوں کو بے دخلی کا معاملہ آئینی تشریح کا بھی ہے۔‘

عدالت عظمیٰ نے جنرل معاملے پر لارجر بینچ تشکیل دینے کے نقطے پر معاونت کرنے کو بھی کہا اورمقدمے کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی گئی۔

درخواست گزار نے اپنی دلیل میں کہا کہ نگران حکومت کے پاس غیر قانونی شہریوں کی بے دخلی کا مینڈیٹ نہیں ہے
درخواست گزار نے اپنی دلیل میں کہا کہ نگران حکومت کے پاس غیر قانونی شہریوں کی بے دخلی کا مینڈیٹ نہیں ہےتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

غیر قانونی مقیم افغان شہریوں کے خلاف کارروائی کی وجہ کیا ہے؟

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں افغان تارکین وطن کو اس لیے واپس اپنے ملک چلے جانے کا حکم دیا گیا ہے کہ پاکستان سے عسکریت پسندی کے خاتمے کی کوششوں کو کامیاب بنایا جا سکے۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان افغان باشندوں کو اس لیے 'قربانی کا بکرا‘ بنایا جا رہا ہے کہ اس بات سے توجہ ہٹائی جا سکے کہ پاکستانی حکام ملک میں جاری تشدد اور خونریزی کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

اب تک پاکستان میں مقیم ہزاروں افغان شہریوں کو اپنے خلاف بڑھتے ہوئے جبر اور گرفتار کیے جانے کی دھمکیوں کے نتیجے میں اس طرح پاکستان سے رخصت ہونا پڑا ہے کہ انہیں اپنے گھر، دکانیں اور دیگر کاروبار یکدم اپنے پیچھے ہی چھوڑ دینا پڑے۔

غیر قانونی مہاجرین کے خلاف کریک ڈاون تیز تر کر دیا گیا

درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ "وفاقی حکومت فرداً فرداً ہر شخص کو نہیں جانچ پائی کہ کوئی فرد خطرہ ہے یا نہیں۔ حکومت یہ ثابت کرنے میں ناکام ہوئی کہ افغانوں کی واپسی کا فیصلہ کس قانونی اتھارٹی کے تحت کیا گیا۔ اس لیے افغان پناہ گزینوں کی بے دخلی کا فیصلہ بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔"

پاکستان افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیوں کر رہا ہے؟

سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تازہ ترین درخواست میں وفاق، چاروں صوبوں، اسلام آباد کے چیف کمشنر، افغان مہاجرین کے چیف کمشنر، نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)، امیگریشن اور پاسپورٹ کے ڈائریکٹر جنرل اور افغان مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کو فریق بنایا گیا ہے۔

پاکستان سے ملک بدری کے بعد افغان مہاجرین کی حالت زار

ج ا/ ص ز (روئٹرز، نیوز ایجنسیاں)