1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امسالہ لیڈ ایوارڈز پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے نام

23 نومبر 2023

بچوں اور نوجوانوں کے آن لائن تحفظ کو یقینی بنانے کی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی کاوشوں کا عالمی سطح پراعتراف کرتے ہوئے اسے امسالہ لیڈ ایوارڈز سے نوازا گیا۔

https://p.dw.com/p/4ZM50
Pakistan / TikTok
تصویر: Anjum Naveed/ASSOCIATED PRESS/picture alliance

پی ٹٰی اے کی کوششوں کے عالمی سطح پر اعتراف کے طور پر سال 2023 ء کا  لیڈ ایوارڈز اس کے نام کیا گیا۔ یہ ایوارڈ ڈائریکٹر پی ٹی اے (چائلڈ آن لائن پروٹیکشن کمیٹی کے سربراہ) محمد فاروق نے سمینا ٹیلی کمیونیکیشن کونسل کی جانب سے منعقدہ پروقار تقریب میں وصول کیا۔ سمینا ٹیلی کمیونیکیشن کونسل ایک سہ فریقی ایسوسی ایشن  ہے جو 25 سے زائد ممالک پر محیط ٹیلی کام آپریٹرز اور مختلف اسٹیک ہولڈرز کی نمائندگی کرتی ہے۔

بچوں اورنوجوانوں کے آن لائن تحفظ کو یقینی بنانے کا عزم

ٹی اے کی نمایاں کامیابیوں میں یونیسیف کے ساتھ ایم او یو، بچوں کےساتھ غیر اخلاقی سلوک کی رپورٹنگ کے لیے شارٹ کوڈ (1121) مختص کرنا، اور یونیسیف گلوبل کی جانب سے Knowledge, Attitude, and Practices (کے اے پی) سروے کو 'ڈسٹرپٹنگ ہارم پروگرام' کا حصہ بنانا شامل ہے۔ اس طرح پاکستان  کے اے پی سروے کرنے والا 12 واں ملک بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کوششوں کی بدولت پی ٹی اے کے لیے لیڈ ایوارڈز کا حصول ممکن ہوا ہے جس سے پاکستان اپنے نوجوانوں کے ڈیجیٹل مستقبل کومحفوظ بنانے میں ایک رہنما کے طور پر سامنے آیا ہے۔ واضح رہے کہ لیڈایوارڈز علاقائی ٹیکنالوجی فراہم کنندگان، کارپوریٹس، ٹیلی کام آپریٹرز اور ریگولیٹرز کی کاوشوں کا یقینی اعتراف ہے۔

Pakistan | Lead Award | PTA Direktor Mohmad Farooq
یہ ایوارڈ ڈائریکٹر پی ٹی اے  محمد فاروق نے سمینا ٹیلی کمیونیکیشن کونسل کی جانب سے منعقدہ تقریب میں صول کیا۔تصویر: Rafat Saeed/DW

بچوں میں تجسس کا عنصر اور ان کی انٹرنیٹ تک رسائی

جامعہ کراچی کے انسٹیٹیوٹ آف کلینیکل سائیکولوجی کی فیکلٹی رکن، کلینیکل سائیکولوجسٹ ربیعہ فاروقی نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ہماری لائف کا ایک فیز ہوتا ہے جسے چائلڈ لائف Curiosity  یا تجسس قراردیا جاتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ تجسس، چیزوں کے بارے میں  جاننا، ایکسپلورکرنا، یہ سب بچپن میں سب سے زیادہ ہوتا ہے اوریہ انسان کی ایک فطری ضرورت ہے اور ہربچے میں ہوتی ہے۔ ہر بچے میں تجسس ،جاننے اورایکسپلورکرنے کی جستجوہوتی ہے۔‘‘

انہوں نے تاہم اس امر کی وضاحت کی  کہ 12 سال سے کم عمری کو عوماً بچپن تصورکیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس عمر میں بچے سوال بھی بہت زیادہ پوچھتے ہیں۔ آج کل کے ایکسپوژر اورانٹرنیٹ تک رسائی کی وجہ سے آج کل کے بچے اپنے تجسس کی بنا پرایسے مواد کو بھی ایکسپلورکرنے لگتے ہیں جو خصوصاً اس عمر کے لیے موزوں نہیں ہوتا ہے بلکہ کسی بھی عمر کے فرد کے لیے  وہ مواد نامناسب ہوتا ہے۔

والدین کی ذمہ داری اور بچوں کا تحفظ

کلینیکل سائیکولوجسٹ ربیعہ فاروقی کا کہنا ہے کہ والدین بچوں کے تجسس کی ضرورت کو روک نہیں سکتے بلکہ انہیں اسے چینلائز کرنا چاہیے، ایک ضابطے میں لانا چاہیے ۔

وہ کہتی ہیں، ’’اگر آپ دبانے کی کوشش کریں گے ان کی انٹرنیٹ تک رسائی روکیں گے یا ان کی ڈیوائسز لے لیں گے تو اس سے تجسس اوربڑھتا ہے اور پھربچے مختلف راستے اورطریقے اختیارکرتے ہیں مطلوبہ مواد تک رسائی کے لیے۔ تو پھر ایسے بچوں پرنفسیاتی اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بولنا سیکھ لیتے ہیں، والدین سے چھپانے لگتے ہیں۔ تو ایسے میں والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ مثبت طور پربچوں کے تجسس کی ضرورت کو پورا کریں اورانہیں وہ مواد فراہم کریں جو ان کے لیے نامناسب نہ ہو اور اس سے ان کی ضرورت پوری ہوسکے اوروہ مطمئن ہوسکیں۔‘‘

Symbolbild Pakistan Abwanderung von Fachkräften
پاکستان میں اب اے آئی نوجوانوں کی بے روزگاری کے حوالے سے بھی زیر بحث ہےتصویر: FAROOQ NAEEM/AFPGetty Images

مختلف اداروں اورپلیٹ فارمز کے ساتھ اشتراک

ٹک ٹاک  جوعمومی طور پرنامناسب مواد کی موجودگی کے باعث بند ہوا، اس پلیٹ فارم کو بھی پی ٹی اے نے تعمیری اورمثبت سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا۔ پی ٹی اے نے ٹک ٹاک کے ساتھ تعاون کے ذریعے 100 سرکاری اسکولوں میں آگاہی ویڈیوز، کتابچے اور ٹول کٹس کے ذریعے آن لائن تحفظ کے فروغ کے لیے بھی اقدام کیے ہیں۔

مزید برآں، پی ٹی اے کی آگاہی مہم میں ویڈیوز، مضامین، اطلاع عام کے نوٹسز، ایس ایم ایس کے ساتھ ساتھ اسلامی اسکالرز، کیرکٹرز، اور انٹر ٹینمنٹ انڈسٹری کے زریعے کمیونٹی انگیجمنٹ شامل ہے۔

کورونا کے بعد انٹرنیٹ کا پھیلاؤ اوربچوں کی اس تک رسائی

سندھ حکومت کے اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی چیف ایڈوائزرڈاکٹر فوزیہ خان کا ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں کہنا تھا کہ پی ٹی اے کی جانب سے یہ بہترین اقدام ہے۔ حکومتی سطح پرابھی تک اس طرح کی کوئی مانیٹرنگ نہیں ہورہی تھی۔

کچھ عرصہ قبل تک بچوں کی انٹرنیٹ تک رسائی محدود کی جارہی تھی تاہم کووڈ کے بعد سے صورتحال یکسربدل گئی ۔ اب والدین اوراساتذہ جو پہلے بچوں کے انٹرنیٹ تک رسائی محدودکرنا چاہتے تھے

اب انہوں نے ہی بچوں کو انٹرنیٹ کی جانب راغب کیا ہے ۔ پھر تعلیمی ضروریات کے پیش نظرآن لائن کلاسز اوردیگرعوامل کی وجہ سے بھی بچوں کے انٹرنیٹ پرایکسپوژرمیں اضافہ ہوا ہے۔

والدین اوراساتذہ کا کردار اور حکومت کی ذمہ داری

ڈاکٹرفوزیہ خان کا مزید کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کی مانیٹرنگ جیسے اقدامات عوامی سطح پرتشہیر نہ ہونے اورسرکاری سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے اتنے موثر نہیں ہوپاتے اس لیے ضروری ہے کہ والدین تک ان اقدامات کے بارے میں انفارمیشن پہنچائی جائے۔

انہیں بتایا جائے کہ ان کے بچے کے تحفظ کے لیے یہ کام کیا جارہا ہے تو وہ اسے انٹرنیٹ کے استعمال سے نہ روکیں بلکہ اپنی سرپرستی میں اسے انٹرنیٹ تک رسائی دیں۔ اس حوالے سے سندھ حکومت نے سائبرسکیورٹی کو نصاب کا حصہ بنایا ہے اورکتابوں میں اس اہم موضوع کو شامل کیا ہے۔

 سائبرBullying اورہراسمنٹ سے کیسے بچا جائے ؟ اس طرح کے دیگرمعاملات پراساتذہ کو بھی ایجوکیٹ کیا گیا ہے کہ وہ طلبا کو بتائیں۔ اسی طرح اساتذہ کے ساتھ ساتھ والدین کا بھی اس معاملے پرآن بورڈ ہونا بہت ضروری ہے۔

Symbolbild Cyberbullying
سائبر بوُلیننگ ایک بڑا مسئلہ ہےتصویر: Antonio Guillen Fernández/PantherMedia/IMAGO
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں