1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ’ہپ ہوپ ڈانس‘ کا بڑھتا ہوا رجحان

6 جنوری 2012

گزشتہ سال سولہ جولائی کو پاکستان کے شہر کراچی میں پہلی بار ایک ہپ ہوپ ڈانس مقابلہ ہوا۔ جس کے بعد ایسے مقابلے اور ہپ ہوپ سرگرمیاں کراچی کے لیے نئی نہیں رہیں۔

https://p.dw.com/p/13fWT
جیول اپنے گروپ کے ہمراہتصویر: Unbreen Fatima

اس وقت کراچی کے علاقے ڈیفنس، کلفٹن اور زم زمہ میں چند ایسے اسٹوڈیوز بھی کھل چکے ہیں، جو ہفتے کے دو دن ایک گھنٹے کے لیے چار سے پانچ ہزار روپے ماہانہ فیس پر ماہر رقاص کی نگرانی میں نوجوانوں کو ہپ ہوپ ڈانس کی تربیت دیتے ہیں۔ مختلف تھیٹرز کے علاوہ تعلیمی اداروں اور کہیںFlash Mobs کی صورت میں یہ نوجوان پرفارمنس دیتے نظر آتے ہیں ۔

ایک کالج کے طالبعلم اور ہپ ہوپ ڈانس کے دیوانے بیس سالہ جیول بتاتے ہیں، ’’پانچ سال پہلے You Got Served نامی ایک فلم آئی تھی۔ میں نے وہ دیکھی، جس سے مجھے ہپ ہوپ ڈانس کے لیے انسپریشن ملی اور میں نے ڈانس شروع کیا۔‘‘

Ifrah
سولہ سالہ افراء بھی ہپ ہوپ کی شوقین ہیں اور ایک مقامی انسٹیٹیوٹ میں ڈانس پریکٹس کرتی ہیںتصویر: privat

جیول گزشتہ پانچ برسوں سے فری اسٹائل بلڈ نام کے ایک ہپ ہوپ ڈانس گروپ سے وابسطہ ہیں۔ یہ ان ہزاروں نوجوان میں سے ایک ہیں، جو پاکستانی معاشرے میں موجود شدت پسندانہ نظریات کو تبدیل کرنے کے لیے سر گرم ہیں۔ پاکستانی ثقافت میں عموماً بھنگڑے کو جو پزیرائی حاصل ہے شاید ہی رقص کے کسی اور انداز کو مل سکے لیکن اس کے باوجود نوجوانوں کی ہپ ہوپ ڈانسنگ کی جانب رغبت کو خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے۔

جیول کہتے ہیں ابتداء میں ہپ ہوپ کو بے ہنگم اُچھل کود قرار دے کر نظر انداز کر دیا جاتا تھا لیکن اب حالات مختلف ہیں، ’’پانچ سال پہلے جب ہم نے یہ شروع کیا تو لوگوں کو پتہ نہیں تھا کہ ہم کیا کر رہے ہیں ۔ وہ اس کو اچھل کود کہتے تھے لیکن اب یہ کلچر لوگوں کو سمجھ آنے لگا ہے۔‘‘

سولہ سالہ افراء بھی ہپ ہوپ کی شوقین ہیں۔ وہ ایک مقامی انسٹیٹیوٹ میں ڈانس پریکٹس کرتی ہیں۔ ایسے معاشرے میں، جہاں رقص کو خاص اہمیت نہیں دی جاتی اور خصوصاً خواتین کے رقص کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے، افرا ء کو بھی ہپ ہوپ ڈانس کی اجازت ملنا ایک مشکل مرحلہ تھا، ’’مجھے شروع میں تو بہت مسلئہ ہوا ۔گھر والوں نے پہلے تو منع کیا اور اجازت نہیں دی ۔ لوگوں نے بھی کہا کہ یہ تو لڑکوں کے شوق ہیں لڑکیوں کے نہیں لیکن میں پڑھائی کے ساتھ پریکٹس کرتی رہی۔ پھر گھر والوں نے بھی دیکھا کہ اس میں کوئی مسلئہ نہیں ہے تو انہوں نے بھی منع نہیں کیا۔‘‘

Ifrah
صرف کراچی میں ہی کم از کم تین سو نوجوان ہپ ہوپ ڈانس کا شوق پارکوں یا کسی تقریب میں پورا کرتے ہیںتصویر: privat

صرف کراچی میں ہی کم از کم تین سو نوجوان ہپ ہوپ ڈانس کا شوق پارکوں یا کسی تقریب میں پورا کرتے ہیں ۔ کراچی میں اب ایسے انسٹیٹیوٹ محدود تعداد میں کھلنا شروع ہو گئے ہیں، جہاں ماہر کوریوگرافرز یا رقص کے استاد انہیں ڈانس کے رموز سکھاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک انسٹیٹیوٹ ’کٹ ون‘ کے بانی حسن دانش بھی ہیں، جو خود تو سالسہ رقص کے ماہر ہیں لیکن اپنے انسٹیٹیوٹ میں ہپ ہوپ ڈانس گروپس کی خاص پذیرائی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں رقص کو بہت زیادہ قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا لیکن ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو ہپ ہوپ رقص کو پسند کرتے ہیں، ’’پہلے تو گھر والے اپنے بچوں کو ڈانس کا شوق پورا کرنے سے منع کرتے تھے لیکن جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، لوگوں کو سمجھ آنے لگی ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ شوق کے علاوہ جسمانی ورزش کا بھی ایک اچھا طریقہ ہے۔‘‘

حسن کے مطابق میڈیا میں دہشت ناک خبروں کو ہی نہیں بلکہ ملک میں ہونے والی لبرل سرگرمیوں کوبھی جگہ دینی چاہیے۔ اس طرح دنیا کو پاکستانی معاشرے کی ایک الگ تصویر بھی دکھائی جا سکتی ہے، ’’ اکثر ميڈيا ميں مار دھاڑ والی خبروں کو سب سے زيادہ اہميت دی جاتی ہے۔ کہيں بک اسٹور کا افتتاح، کسی کی رقص پرفارمنس يا نمائشوں کی خبروں کو اہميت کم دی جاتی ہے۔ ملک ميں ثقافتی سرگرميوں کو نمایاں جگہ دی جائےتو پاکستان کےاميج کو يقيناً بہتر بنايا جا سکتا ہے‘‘۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں