پاکستان میں ڈینگی بخار کے مریضوں میں اضافہ، سہولیات ناکافی
6 ستمبر 2011صرف لاہور شہر میں ڈینگی بخار سے متاثرہ افراد کی تعداد پندرہ سو سے زائد بتائی جا رہی ہے۔
پچھلے تین دنوں میں اس وائرس سے متاثرہ دو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ لاہور میں ڈینگی وائرس وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے، خاص طور پر شہر کے متمول علاقے بری طرح سے اس کی لپیٹ میں ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کا رش ہے جبکہ نجی ہسپتالوں میں بھی ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کے لیئے بستر نہیں مل پا رہے ہیں۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے جناح ہسپتال کے چیف ایگزیکیٹو پروفیسرڈاکٹر جاوید اکرم نے بتایا کہ ڈینگی بخار سے متاثرہ مریضوں کے حوالے سے حکومتی اعدادوشمار قابل اعتبار نہیں ہیں کیونکہ ان کی بنیاد سرکاری لیبارٹریوں کے نتائج کو بنایا گیا ہے۔ ان کے بقول پرائیوٹ ہسپتالوں میں جانے والے اور غیر سرکاری لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کرانے والے بہت سے لوگ ان اعدادوشمار میں شامل نہیں ہیں۔
ایک نجی ہسپتال کے باہر کھڑے لاہور کے ایک شہری محمد متین نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ لاہور کے ہر گلی کوچے میں ڈینگی کے مریض موجود ہیں۔ ان کے بقول ہسپتالوں میں ڈینگی کے علاج کے لیے مناسب اور کافی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ شہر کے چھ نجی ہسپتالوں میں بیڈ نہ مل سکنے کی وجہ سے ڈینگی کے شکار اپنے بیٹے کو اسلام آباد لے کر جا رہے ہیں۔
ادھر محکمہ صحت پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد اسلم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پنجاب حکومت ڈینگی کی روک تھام کے لیے کافی کوششیں کر رہی ہے۔ ہسپتالوں میں خصوصی وارڈز بنائے گئے ہیں، تمام علاقوں میں سپرے کروایا جا رہا ہے اور لوگوں کو آگاہی بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ ان کے بقول ڈینگی بخار سے ہلاکتوں کی شرح نصف فی صد سے بھی کم ہے جبکہ شوگر، بلڈ پریشر اور ٹی بی جیسے امراض میں مرنے والوں کی شرح 10فی صد کے قریب ہے۔
یاد رہے کہ ڈینگی بخار ایک خاص قسم کے مادہ مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہوتا ہے اور اس کے حتمی علاج کے لیئے کوئی خاص ویکسینیشن دستیاب نہیں ہے۔ آج کل پاکستان میں موسم معتدل اور ابر آلود ہے جو کہ اس مچھر کی پرورش کے لیئے بہت سازگار ہے۔
ڈینگی کے حوالے سے تحقیق کرنے والے ڈاکٹر جاوید اکرم کہتے ہیں کہ ڈینگی وائرس نے لاہور میں سپرے کی جانے والی ادویات کے خلاف قوت مدافعت پیدا کر لی ہے۔ ان کے بقول ڈینگی ہر دو سال بعد زیادہ شدت سے حملہ آور ہوتا ہے اور اگلے سال اس کا حملہ بہت شدید ہو سکتا ہے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد
ادارت: حماد کیانی