پاکستان میں غیر ملکیوں کا اغوا، سراغ نہیں مل سکا
20 جنوری 2012ملتان سے غیرملکیوں کے اغوا کی واردات کا مقدمہ ڈبلیو ایچ ایچ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے ایک اہلکار خورشید کی طرف سے تھانہ کینٹ ملتان میں زیر دفعہ چار سو انسٹھ اور تین سو پینسٹھ درج کر لیا گیا ہے۔ تھانہ ملتان کینٹ کے ایک اہلکار عمر کے مطابق باقر شاہ نامی تفتیشی افسر اس معاملے کی تحقیق کر رہے ہیں لیکن ابھی تک اس ضمن میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ ملتان کے پولیس افسران نے جمعے کو ایک اعلی سطحی اجلاس میں اس کیس کے حوالے سے اپنی حکمت عملی پر غور کیا۔
غیرملکی این جی او سے تعلق رکھنے والے خورشید نے بتایا کہ انہیں اس کیس کی پیش رفت کے حوالے سے ابھی کچھ معلوم نہیں ہے۔ ملتان میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے لیے کام کرنے والے شاہ نواز نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے بہت سی غیر ملکی این جی اوز اس وقت بھی کام کر رہی ہیں اس واقعے کے بعد ان میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے۔
دفاعی تجزیہ کار فاروق حمید کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کو عام طور پر طالبان کے حامی گروہوں کا مرکزسمجھا جاتا رہا ہے، اس سے یہی لگتا ہے کہ یہ واردات کسی دہشت گرد گروہ کی کارروائی ہو سکتی ہے۔ ان کے بقول پچھلے چند مہینوں میں لاہور، کوئٹہ، اور پشاور سمیت کئی علاقوں سے آدھی درجن کے قریب غیر ملکیوں کو اغوا کیا جا چکا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل پاکستان کے حساس ادارے کے ایک اہم ترین افسر کے داماد اور مقتول سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے کو بھی دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے اغوا کیا جا چکا ہے۔
جنوبی پنجاب کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے ایک دوسرے تجزیہ کار عامرخاکوانی کے مطابق جنوبی پنجاب میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ واقعہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اس دعوے کی بھی نفی کرتا ہے جس کے مطابق یہ کہا جاتا رہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک توڑ دیا گیا ہے۔
ملتان میں ایک انگریزی اخبار کے لیے کام کرنے والے صحافی شکیل احمد کی رائے قدرے مختلف ہے۔ ان کے بقول پاکستان میں بالادست قوتیں ریمنڈ ڈیوس کے واقعے کے بعد غیر ملکیوں کی سرگرمیوں کی نگرانی کر رہی تھیں۔ غیر ملکی صحافی اور این جی اوز کے لوگوں کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کے بقول اس واقعے کو اس زاویے سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان شہریوں کے اغوا کا یہ واقعہ ایک ایسے موقع پر پنجاب میں پیش آیا ہے، جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف جرمنی کے شہر برلن میں ہونے والی عالمی نمائش میں موجود ہیں اورجرمن سرمایہ کاروں کا تعاون حاصل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ یاد رہے یہ واقعہ ایک ایسی جگہ پیش آیا ہے جو وزیر اعظم پاکستان کی رہائش گا سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر انتہائی سیکورٹی زون میں واقع ہے۔
دفاعی امور کے ماہر جنرل ر طلعت مسعود کہتے ہیں کہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے ذریعے کیے جانے والے ان واقعات کے ذریعے طالبان پیسہ کمانا چاہتے ہیں۔ ان کے بقول اس مئسلے کا حل صرف یہ ہے کہ حکومت خفیہ اداروں کے ذریعے ان کے نیٹ ورک کا پتہ چلائے، دہشت گردوں کو پناہ دینے اور انہیں مدد فراہم کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اس کے لیے عوامی حمایت بھی حاصل کی جانی چاہیے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: ندیم گِل