پاکستان: سیاسی جماعتوں کا کابل سے سکیورٹی مذاکرات پر زور
14 جنوری 2025پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر سے پشاور میں پیر کو تقریباً چار گھنٹے طویل ملاقات میں کئی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے صوبہ خیبر پختونخوا میں امن و امان کی موجودہ صورتحال پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
پاکستان کے ڈان نیوز کے مطابق اجلاس سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ سیاسی قیادت نیشنل ایکشن (این اے پی) پر مکمل عمل درآمد چاہتی ہے، جب کہ اگر ضرورت ہو تو بعض تبدیلیاں کرنے کے لیے پلان پر نظرثانی کا مشورہ بھی دیا۔
پاکستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیاں، ایک جائزہ
ذرائع کے مطابق میٹنگ میں جے یو آئی-ایف، پی پی پی، پی ایم ایل-این، جے آئی، کیو ڈبلیو پی کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ انہوں نے بتایا کہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے عبوری افغان حکومت کے ساتھ، "رسمی یا غیر رسمی، بات چیت" کی تجویز پیش کی۔
پاکستان اور افغانستان کی دوری، بھارت کے لیے خطے میں اثر و رسوخ بڑھانے کا سنہری موقع
تمام شرکاء کی رائے تھی کہ پڑوسی ممالک کے درمیان تعاون خطے میں امن کے قیام میں سہولت فراہم کر سکتا ہے۔
'وہ ہماری بات نہیں سنتے'
تاہم آرمی چیف نے نشاندہی کی کہ افغان عبوری حکمران ماضی میں بارہا تنبیہ پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق آرمی چیف نے عبوری افغان حکومت کے ساتھ رسمی یا غیر رسمی بات چیت کا مطالبہ کرنے والوں کو بتایا کہ ''وہ ہماری بات نہیں سنتے‘‘۔
پاکستان کا افغانستان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کا عزم
سیاسی رہنماؤں نے اس کے باوجود فوجی قیادت کو مشورہ دیا کہ وہ مسائل کے حل کے لیے افغان عبوری حکومت کے ساتھ "بات چیت کے لیے دوسرے طریقے" استعمال کریں۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے آرمی چیف اور مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کے درمیان بات چیت کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شرکاء نے عسکریت پسندی کی لعنت کے خلاف ایک متحد سیاسی آواز اور عوامی حمایت کی ضرورت پر اتفاق کیا۔
آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق سیاسی نمائندوں نے عسکریت پسندی کے خلاف قوم کی لڑائی میں مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو غیر متزلزل حمایت کا واضح اعلان کیا۔ سیاسی جماعتوں نے عسکریت پسند گروپوں کے انتہا پسندانہ فلسفے کے خلاف سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر ایک متحد محاذ کی ضرورت پر بھی اتفاق کیا۔
فیصلہ کن جواب دیا جائے گا
آئی ایس پی آر کے مطابق گو کہ عسکری قیادت نے واضح کیا کہ کوئی نیا فوجی آپریشن نہیں کیا جا رہا یے لیکن کہا کہ "انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن تیز کیا جائے گا۔" انہوں نے کہا کہ فوج نے سیاسی جماعتوں سے بھی رائے طلب کی ہے۔
حکومت بلوچستان میں دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام کیوں؟
آرمی چیف جنرل منیر نے واضح کیا کہ قوم کا امن خراب کرنے کی کسی بھی کوشش کا فیصلہ کن اور بھاری طاقت سے جواب دیا جائے گا۔
آرمی چیف کا کہنا تھا، "دشمن اختلاف اور خوف کے بیج بونے کی کوشش کر سکتا ہے، لیکن ہم باز نہیں آئیں گے۔ دشمن عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ وہ بھاری نقصان اٹھاتے رہیں گے، اور نقصان پہنچانے کی ان کی صلاحیت ختم ہو جائے گی۔"
انہوں نے فوجیوں کے غیر معمولی حوصلے کو بھی سراہا، جو قوم کی خودمختاری کے تحفظ کے لیے اپنے عزم پر ثابت قدم رہے اور اس بات کا اعادہ کیا کہ مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے پاکستان اور اس کے عوام کے تحفظ کے لیے اپنے مشن میں پرعزم ہیں۔
پاکستان کے آرمی چیف کے یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب کہ بالخصوص بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی سے متعلق واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ج ا ⁄ ر ب (خبر رساں ادارے)