1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

پاکستان کا افغانستان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کا عزم

13 دسمبر 2024

اسلام آباد کا کہنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ حالیہ بات چیت اس بات کا عندیہ ہے کہ پاکستان مذاکرات سے تمام تصفیہ طلب مسائل کا حل چاہتا ہے۔ اس نے افغان سرزمین پر ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں کے بارے میں خدشات کا اعادہ بھی کیا۔

https://p.dw.com/p/4o5bJ
ممتاز زہرہ بلوچ
ممتاز زہرہ بلوچ کا کہنا ہے کہ فریقین میں حالیہ ملاقاتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام آباد کی تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے میں دلچسپی ہےتصویر: Muhammet Nazim Tasci/Anadolu/picture alliance

اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ پاکستان اور افغان حکام کے درمیان حالیہ ملاقاتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ فریقین میں  ’’وقتاً فوقتاً جو مسائل پیدا‘‘ ہو رہے ہیں، انہیں پاکستان ’’تعمیری نقطہ نظر اپنا کر مذاکرات کے ذریعے‘‘ حل کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد میں افغانستان کے ناظم الامور سردار احمد شکیب نے گزشتہ ہفتے پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور ملکی وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ملاقات کی تھی۔ یہ ملاقات کابل میں پاکستان کے ناظم الامور عبید نظامانی اور طالبان کے وزیر دفاع ملا یعقوب کے درمیان ہونے والی ملاقات کے فوری بعد ہوئی تھی۔

چین کی پاکستان اور افغانستان کے مابین کشیدگی کم کرانےکی کوشش

انہیں ملاقاتوں کے بعد یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ پاکستان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو اپنی سرزمین پر پناہ گاہیں فراہم کرنے سے متعلق جو الزامات افغان طالبان پر عائد کیے ہیں، ان سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے بعد فریقین تعلقات کو از سر نو سمت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کابل کی طرف سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اس سے منسلک گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں ناکامی کے سبب پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔

طالبان حکومت کا پاکستان پرخودکش حملہ آوروں کو تربیت دینے کا الزام

پاکستان نے اپنی ناراضی کا اظہار کرنے کے لیے عبوری افغان حکومت کے ساتھ اپنے رابطے عملی طور پر محدود کر دیے تھے،  تاہم اب اس تعطل کے خاتمے کے لیے پاکستان نے کابل پر دباؤ ڈالنے کے لیے دوبارہ کوششیں شروع کر دی ہیں۔

اس امر کا پہلا اشارہ افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی کی تقرری ہے، جس کے لیے تجربہ کار سفارت کار محمد صادق کو کابل کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔

ایران سے نکالے گئے افغان مہاجرین کی مشکلات

دہشت گردی کا معاملہ سرفہرست

اس حوالے سے جب ممتاز زہرہ بلوچ سے سوال کیا گیا، تو انہوں نے کہا کہ فریقین میں حالیہ ملاقاتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام آباد کی تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے میں دلچسپی ہے۔

ایران نے قومی ترانے کی توہین پر طالبان سفیر کو طلب کر لیا

گزشتہ ہفتے انہوں نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا تھا کہ انسداد دہشت گردی کا معاملہ دو طرفہ ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔ البتہ ان کا اس بات پر اصرار بھی تھا کہ اسحاق ڈار کے ساتھ افغان سفارت کار کی ملاقات ایک ’کرٹسی میٹنگ‘ تھی، جس کے لیے افغان فریق نے کچھ عرصہ قبل درخواست کی تھی۔

پاکستان افغان سرحد طور خم
پاکستان کا الزام ہے کہ ٹی ٹی پی گروپ کے عسکریت پسند پاکستان میں حملہ کرنے کے لیے افغانستان کی سرزمین کا استعمال کرتے ہیں اور انہیں وہاں محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیںتصویر: Shafiullah Kakar/AFP

ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا، ’’میں متعدد بار یہ کہہ چکی ہوں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان رابطوں کے براہ راست ذرائع موجود ہیں۔ ہم باہمی تشویش کے تمام امور پر بات چیت کرتے رہتے ہیں۔ دہشت گردی کے خطرے کا مسئلہ، جس کا پاکستان کو سامنا ہے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔‘‘

پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان نے افغان سرزمین پر ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں کے بارے میں خدشات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا، ’’ان دہشت گرد گروپوں کے حوالے سے پاکستان کے خدشات برقرار ہیں، جنہوں نے افغانستان کے اندر اپنے لیے ٹھکانے تلاش کر لیے ہیں اور جنہیں پاکستان کے خلاف حملے کرنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ یہ معاملہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل ہے۔‘‘

پاک افغان سرحد پر جھڑپیں، آٹھ فوجی اور سات شدت پسند ہلاک

ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم نے ہمیشہ ان مسائل کے حل کے لیے بات چیت پر زور دیا ہے۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ افغانستان اس بات کو یقینی بنائے گا کہ یہ دہشت گرد گروہ پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں بنیں گے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’ہم کسی بھی فرد، ادارے یا ایسے معاون کی مذمت کرتے ہیں جو ان دہشت گردانہ سرگرمیوں کی حمایت کرتا ہو۔ اگر آپ نے نیشنل ایکشن پلان کی فیڈرل ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے آنے والا حالیہ بیان دیکھا ہے، تو آپ کو یاد ہوگا کہ اس میں غیر ملکی اسپانسرز کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔‘‘

شام کی خود مختاری کا معاملہ

پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران شام کے بحران پر بھی بات کی اور کہا کہ پاکستان کو اسرائیل کی جانب سے شام کی خود مختاری کی خلاف ورزیوں پر تشویش لاحق ہے۔ انہوں نے شام کے بحران کے حل کے لیے ایک جامع لائحہ عمل پر زور دیا۔

پاکستان کے ترانے کی توہین، اسلام آباد کی کابل سے شکایت

ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا، ’’ہم شام کی خود مختاری، ریاستی وحدت اور علاقائی سالمیت کی مکمل حمایت کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیلی افواج گولان کی پہاڑیوں میں اندر گہرائی تک داخل ہو گئی ہیں اور شام بھر میں فوجی اہداف پر اب تک اسرائیل نے تقریباً 500 فضائی حملے کیے ہیں۔

اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی ترجمان نے کہا، ’’ہم شام میں ہونے والی پیش رفت کو دیکھ رہے ہیں اور تشدد میں اضافے پر فکر مند ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سیاسی بحران کا حل شامی عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیے۔

افغانستان: تاپی گیس پائپ لائن منصوبے پر تعمیراتی کام شروع

انہوں نے کہا، ’’شام کے عوام کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا خود تعین کریں اور اپنی قسمت کا فیصلہ کریں۔ ہم ایک ایسے جامع سیاسی عمل کے لیے کوششوں کی بھی حمایت کرتے ہیں، جس کا تصور قرارداد نمبر 2254 کے تحت کیا گیا تھا اور جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔‘‘

ص ز/ م م (نیوز ایجنسیاں)

کیا تحریک طالبان پاکستان کو افغان طالبان کی حمایت حاصل ہے؟