1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وزیر اعظم نریندر مودی کو درپیش بڑے چیلنجز

جاوید اختر، نئی دہلی
10 جون 2024

نریندر دامودر داس مودی نے تیسری مدت کے لیے بطور بھارتی وزیر اعظم حلف لینے کے بعد آج پیر سے باقاعدہ اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ لیکن وہ پہلی بار عملاﹰ ایک مخلوط حکومت کی قیادت کریں گے اور انہیں کئی چیلنجز درپیش رہیں گے۔

https://p.dw.com/p/4grfG
مودی   بھارتی وزیر اعظم
مودی نے تیسری مدت کے لیے بطور بھارتی وزیر اعظم آج پیر سے باقاعدہ اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیںتصویر: Money Sharma/AFP

 

نریندر مودی کو 2001ء سے 2014ء تک گجرات میں ریاستی حکومت اور 2014ء کے بعد سے اب تک مرکز میں دس سال کے دوران حکومت چلانے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی کیونکہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو ریاستی اسمبلی اور پارلیمنٹ میں مکمل اکثریت حاصل تھی۔ تاہم چار جون کے قومی انتخابی نتائج نے حالات یکسر بدل دیے۔ اب مودی حکومت دو حلیف جماعتوں، بہار کے نتیش کمار کی جنتا دل یونائیٹڈ اور آندھرا پردیش کے چندرا بابو نائیڈو کی تیلگو دیسم پارٹی کی بیساکھیوں کے سہارے قائم ہے۔

بھارتی انتخابات: مخلوط حکومت کا دور پھر سے واپس

نریندر مودی تیسری مدت کے لیے بھارتی وزیر اعظم بن گئے

یہی وجہ ہے کہ مخلوط حکومت کے 'دھرم‘ کو نبھانے کے لیے اتوار کے روز نریندر مودی کو اپنی نئی کابینہ میں ان دونوں جماعتوں کو بڑی نمائندگی دینا پڑی۔ 2009ء میں ان کی کابینہ میں 58 وزراء اور 2014ء میں 46 وزراء تھے۔ لیکن اتوار کے روز 72 وزراء نے حلف اٹھایا، جو کہ وزیروں کی زیادہ سے زیادہ منظور شدہ تعداد 81 سے صرف نو کم ہے۔

بھارتی وزیراعظم مودی کو عالمی رہنماؤں کی مبارک باد

ایک اتحادی جماعت نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے پرفل پٹیل نے وزارت کا حلف لینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ وہ کابینہ کے درجے کے وزیر رہ چکے ہیں اور انہیں اس سے کم تر درجے کی وزارت دی جا رہی ہے۔

مودی
مودی اب بی جے پی حکومت یا مودی کی گارنٹی جیسے الفاظ اور تراکیب استعمال نہیں کر رہےتصویر: Manish Swarup/AP Photo/picture alliance

مودی کے لہجے میں واضح تبدیلی

وزیر اعظم مودی کو مخلوط حکومت کے مسائل کا اندازہ ہے، جس کا اظہار پچھلے چند دنوں کے دوران ان کے بیانات اور لہجے سے بھی ہو رہا ہے۔ اب وہ ''بی جے پی حکومت‘‘ یا ''مودی کی گارنٹی‘‘ جیسے الفاظ اور تراکیب استعمال نہیں کر رہے۔

بھارت: قومی انتخابات کے نتائج وزیر اعظم مودی کے لیے دھچکا

ذرائع کے مطابق نریندر مودی نے اس مرتبہ وزیروں کے انتخاب میں اپنا اختیار تمیزی بھی استعمال نہیں کیا اور اتحادی جماعتوں نے جن افراد کے نام بطور وزیر بھیجے، انہیں بہ سر و چشم قبول کر لیا گیا۔

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس مرتبہ وزیروں کی فہرست تیار کرنے میں انہوں نے امیت شاہ اور بی جے پی صدر جے پی نڈا جیسے پارٹی کے ساتھیوں سے صلاح و مشورے بھی کیے اور مخلوط حکومت چلانے کے سلسلے میں مشوروں کے لیے لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جیسے جہاں دیدہ سیاست دانوں کے گھر بھی گئے۔

سیاسی تجزیہ کار اور سماجی کارکن انجینیئر محمد سلیم کا کہنا ہے کہ اس الیکشن میں عوام نے ایک شخص کے نام پر چلنے والی سرکار کو مسترد کر دیا اور امید ہے کہ عوام نے جو فیصلہ سنایا ہے، اس پر نئی حکومت غور کرے گی اور سب کو ساتھ لے کر چلے گی۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عوام نے اس مرتبہ پوری باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھی ہے اور اب عوام کی مرضی کے مطابق ہی حکمران اتحاد کو کام کرنا ہو گا، جو اس الیکشن اور بھارتی جمہوریت کی بہت بڑی کامیابی ہے۔

محمد سلیم کا مزید کہنا تھا کہ ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی اب اپنے رویے پر غور کرنے پر مجبور ہو گی ہے کیونکہ عوام نے نفرت کی سیاست، سماج کو تقسیم کرنے کی پالیسی اور مندر مسجد کے نام پر پھوٹ ڈالنے کی سیاست کو پوری طرح مسترد کر دیا ہے۔ میڈیا بھی اب بے خوف ہو کر سچ بات کہنے کی ہمت کر سکے گا۔

مودی کے سامنے کئی طرح کے چیلنجز ہوں گے تاہم ایک ماہر اور زیرک سیاست دان کے طور پر وہ اپنی کشتی کو منزل تک لے جانے کا ہنر خوب جانتے ہیں
مودی کے سامنے کئی طرح کے چیلنجز ہوں گے تاہم ایک ماہر اور زیرک سیاست دان کے طور پر وہ اپنی کشتی کو منزل تک لے جانے کا ہنر خوب جانتے ہیںتصویر: Manish Swarup/AP Photo/picture alliance

مودی کو درپیش اہم چیلنجز

وزیر اعظم مودی کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ کم از کم تین محاذوں پر پریشانیاں پیش آ سکتی ہیں۔ کابینہ میں وزارتوں کی تقسیم تو ایک معاملہ ہے۔   ''اگنی پتھ اسکیم‘‘ پر دونوں اہم اتحادیوں کے ساتھ ان کا ٹکراؤ ہو گا کیونکہ جنتا دل یونائیٹڈ اور تیلگو دیسم پارٹی دونوں نے اس متنازعہ اسکیم کو ختم کرنے کا عوام سے وعدہ کیا ہے۔ اس اسکیم کے تحت بھارتی فوج میں نوجوانوں کو صرف چار سال کے لیے ملازمت دی جاتی ہے۔

یکساں سول کوڈ ہندو قوم پرست جماعت کا اہم انتخابی وعدہ تھا لیکن اب اسے اس کو بھی پس پشت ڈالنا ہو گا۔ اسی طرح ''ایک ملک، ایک الیکشن‘‘ کی بی جے پی کی تجویز بھی اب سرد خانے میں جا سکتی ہے۔ نتیش کمار اپنی ریاست میں ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کے بعد اب ملک بھر میں اس پر عمل درآمد کرانا چاہتے ہیں جب کہ بی جے پی شروع سے ہی اس کی مخالف رہی ہے۔

تیلگو دیسم پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں مسلمانوں کو ریاست آندھرا پردیش میں چار فیصد ریزرویشن دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن بی جے پی انتخابی مہم کے دوران اس کی سخت مخالفت کرتی رہی ہے۔

اس مرتبہ اپوزیشن پہلے کے مقابلے زیادہ مضبوط ہے، اس لیے مودی کو اپنے فیصلوں کو منظور کروانے میں دشواری پیش آ سکتی ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انہیں خود اپنی جماعت یعنی بی جے پی کی مربی تنظیم آر ایس ایس کا بھی خیال رکھنا ہو گا، جو بالخصوص اتر پردیش، حتیٰ کہ اجودھیا میں پارٹی کی خراب کارکردگی سے ناراض ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالانکہ مودی کے سامنے کئی طرح کے چیلنجز ہوں گے، تاہم ایک ماہر اور زیرک سیاست دان کے طور پر وہ اپنی کشتی کو منزل تک لے جانے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔