1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

واہگہ بارڈر بند، ہلاکتوں کی تعداد ساٹھ ہو گئی

عاطف بلوچ3 نومبر 2014

واہگہ بارڈر پر خود کش حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 60 ہو گئی ہے۔ دریں اثناء پاکستان اور بھارت دونوں نے واہگہ کی بارڈر کراسنگ عارضی طور پر مسافروں اور تجارت کے لیے بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DfsU
تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

پیر کے روز کیے جانے والے اس فیصلے سے قبل پاکستان اور بھارت نے واہگہ بارڈر پر ہونے والی پرچم کشائی اور پرچم اتارنے کی روزانہ رسمی تقاریب بھی فی الحال منسوخ کر دی تھیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے صوبائی پولیس کے سربراہ مشتاق سکھیرا کے حوالے سے بتایا ہے کہ بظاہر یہ ایک خود کش حملہ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ واہگہ بارڈر پر ’پرچم کشائی‘ کی تقریب کے بعد جب لوگ پارکنگ میں پہنچے تو یہ حملہ وہاں کیا گیا۔ ہلاک شدگان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ خدشہ ہے کہ ہلاک شدگان کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں اس دہشت گردانہ کارروائی پر ’غم و افسوس‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس حملے کے ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

ادھر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی لاہور میں شہریوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں مودی نے اسے ’دہلا دینے والی اور بھیانک‘ کارروائی قرار دیا ہے۔ انہوں نے اس حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین سے اظہار تعزیت کیا اور کہا کہ وہ زخمیوں کے جلد صحت یاب ہونے کے لیے دعا گو ہیں۔

Selbstmordattentat in Lahore 02.11.2014
اس حملے کی ذمہ داری کے حوالے سے متضاد دعوے کیے جا رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/ Rahat Dar

یہ امر اہم ہے کہ واہگہ بارڈر پر روزانہ غروب آفتاب کے وقت سرکاری طور پر بھارت و پاکستان کی سرحد کو بند کیا جاتا ہے اور اس رنگا رنگ تقریب کو دیکھنے کے لیے لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں جمع ہوتی ہے۔ بالخصوص اتوار کو یہ تعداد زیادہ ہی ہوتی ہے۔

ذمہ داری کے حوالے سے متضاد دعوے

اس حملے کی ذمہ داری کے حوالے سے متضاد دعوے کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان تحریک طالبان کے حکیم اللہ محسود گروہ نے کہا ہے کہ یہ حملہ اس کے ساتھیوں نے کیا ہے۔ اس گروہ کے ترجمان عبداللہ بہار نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ کارروائی دراصل سابق طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا بدلہ ہے۔

ادھر کالعدم تحریک پاکستان طالبان سے ستمبر میں الگ ہونے والے دھڑے جماعت الحرار نے عبداللہ بہار کے دعوے کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس گروہ کے ترجمان احسان اللہ احسان کی طرف سے ایک ای میل بیان جاری کیا گیا ہے، جس میں اس نے کہا ہے کہ یہ حملہ شمالی وزیرستان میں جاری فوجی کارروائی کے جواب میں کیا گیا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ جلد ہی اس حملے کی ویڈیو بھی جاری کر دی جائے گی۔

قبل ازیں مقامی میڈیا میں کہا گیا کہ واہگہ بارڈر کے قریب ہوئی یہ کارروائی ایک اور عسکری گروہ ’جند اللہ‘ نے کی ہے۔ یہ گروہ بھی پاکستان میں ہونے والی متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے۔

بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس کے انسپکٹر جنرل آر پی ایس جسوال نے کہا ہے کہ ان کی طرف صورتحال کنٹرول میں ہے لیکن لاہور میں ہونے والی اس کارروائی کے بعد سکیورٹی مزید بڑھا دی گئی ہے۔ امرتسر میں تعینات اس بھارتی سکیورٹی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا، ’’سرحد کے پار ہونے والے دھماکے کے بعد ریڈ الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔‘‘