1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نایاب ڈائنوسار کی باقیات دریافت

11 جون 2022

ڈائنوسارز کی انتہائی نایاب قسم اور ٹرائنوسارز ریکس سے بھی بڑے سپائنوسارز کے کچھ ڈھانچے برطانوی علاقے آئزل آف وائٹ سے دریافت ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4CZFF
Spinosaurus und Psittacosaurus
تصویر: CSP_AlienCat/imago images

مگرمچھ سے ملتے جلتے ڈھانچے جیسے لیکن حجم میں انتہائی بڑے سپائنوسارز ڈائنوسارز میں دلچسپی لینے والوں کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ یہ دیکھنے میں انتہائی اچھوتے ہوتے ہیں اور جراسک پارک فلم میں دکھائے جانے والے خطرناک ٹرائنوسارز سے بھی کئی گنا بڑے اور طاقت ور ہوتے ہیں۔

ڈائنوسارز کے بعد، اب کئی حیاتیاتی انواع کے ناپید ہونے کا خطرہ

ارجنٹائن میں سخت کھوپڑی والے ڈائنوسار کا ڈھانچا برآمد

تاہم مقبولیت کے باوجود سائنسدانوں کو ان سے متعلق انتہائی کم معلومات حاصل رہی ہیں اور اس کی وجہ ان کے ڈھانچوں کا نہ ملنا ہے۔

سائنسدان سپائنوسارز کے ڈھانچوں کے ملنے کو 'تقریباﹰ ناممکن‘ قرار دیتے رہے ہیں۔ آج تک سپائنوسارز کے صرف سات ڈھانچے دریافت کیے گئے تھے، جس میں سے سب سے زیادہ بہتر حالت میں ملنے والا ڈھانچہ مراکش کے مشرقی حصے سے ملا تھا۔

اسی تناظر میں سائنسدانوں کو امید ہے کہ نئے ملنے والے ڈھانچوں سے اس عظیم الجسہ ڈائنوسار سے متعلق معلومات میں اضافہ ہو گا۔ یہ نئے ڈھانچے انگلینڈ کے علاقے آئزل آف وائٹ کے جنوب مغربی ساحلی علاقے سے ملے ہیں۔

سپائنوسار، شاید سب سے بڑے شکاری ڈائنوسارز

سائنسی جریدے پیئر جے لائف اینڈ انوائرمنٹ میں شائع ہونے والی مطالعاتی رپورٹ کے مطابق ملنے والے یہ نئے ڈھانچے 125 ملین برس پرانے ہیں۔

برطانوی یونیورسٹی آف ساؤتھ ایمپٹن سے وابستہ اور اس مطالعاتی ٹیم کے قائد کرِس بیکر کے مطابق، ''یہ بہت بڑا جانور تھا۔ دس میٹر سے بھی زیادہ قامت کا۔ ہم نے اس کی جہتیں ناپیں ہیں اور ممکن ہے کہ یورپ میں دریافت ہونے والے یہ آج تک کا سب سے بڑا شکاری جانور ہو۔‘‘

سپائنوسارز آئے کہاں سے؟

محققین کے مطابق خیال یہی ہے کہ سپائنوسارز کا اصل میں تعلق مغربی یورپ سے تھا، یہیں سے یہ کہی اسپیشیز میں تقسیم ہوئے اور ہجرت کرتے چلے گئے۔

اسی گروپ سے تعلق رکھنے والے جانور جنوبی انگلینڈ کے علاوہ برازیل، نائجر، تھائی لینڈ اور لاؤس میں بھی ملے ہیں۔

پہلی بار سپائنوسارز کب دریافت ہوئے؟

پہلی بار سن 1912 میں ایک آسٹریلوی محقق رچرڈ مارکفراف نے مصری ساھلی علاقے سے سپائنوسارز کی باقیات دریافت کیں۔ جرمن محقق ایرنسٹ شٹرومر فان رائشن باخ نے اسے سپائنوسارز ایگپٹیاکُس کا نام دیا۔

بدقسمتی سے مصر سے جرمن میوزم میونخ منتقل کرتے ہوئے ان ڈھانچوں کو شدید نقصان پہنچا جب کہ 1944 میں جرمن شہر ڈؤسلڈورف کے آلٹے اکیڈمی میوزیم پر ہوئے ایک فضائی حملے میں باقی ماندہ ہڈیاں بھی کھو گئیں۔

سپائنوسارز کتنے بڑے؟

باقی بچ جانے والی باقیات کو سامنے رکھتے ہوئے سائنسدانوں نے سپائنوسارز کی جسامت سے متعلق اندازے لگائے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ جانور پندرہ سے اٹھارہ میٹر لمبا اور چھ سے نو ٹن وزنی ہوا کرتا تھا۔

اس کی کھوپڑی ہی پونے دو میٹر لمبی ہے، جس سے طے ہوتا ہے کہ شکار کرنے والے جانوروں میں سپائنوسارز ممکنہ طور پر سب سے بڑے جانور تھے۔