1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرت: طالبان کا خوف یا خوشحالی کی تمنا؟ ایک سکے کے دو رخ

24 اگست 2021

افغانستان سے لوگ طالبان کے خوف کی وجہ سے فرار ہونے کی کوشش میں ہیں یا یہ اقتصادی مہاجرت ہے؟ اس بارے میں حقائق جاننے کی خاطر ان دونوں عوامل کا تجزیہ ناگزیر ہے۔ دراصل خوف خوشحال زندگی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3zQGn
Uzbekistan | Durch die Bundeswehr Evakuierte aus Kabul landen in Tashkent
تصویر: Marc Tessensohn/Bundeswehr/Handout/REUTERS

 'افغان طالبان تو بہت اچھے ہیں، لوگ ان سے خوفزدہ نہیں بلکہ صرف خوشحال مستقبل کی خاطر مغربی ممالک جانا چاہتے ہیں‘۔ یہ بیانیہ صرف طالبان کا ہی نہیں بلکہ اب تو اس پر بہت سے لوگ یقین کرنے لگے ہیں۔

بدقسمتی سے افغانستان اور پاکستان جیسے ملکوں میں ریاستی پالیسیاں اور خوشحال معاشرہ دو الگ الگ باتیں تصور کی جاتی ہیں۔ جبر کے شکار افراد اگر بولتے ہیں تو انہیں غدار اور قومی مفادات کا دشمن قرار دے دیا جاتا ہے۔

'اچھے مستقبل یا معاشی و معاشرتی خوشحالی کے لیے لوگ مغربی ممالک جانے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں‘۔ یہ وہ بیانیہ ہے، جسے دیگر ترقی پذیر خطوں کی طرح جنوب ایشیائی ممالک میں بھی ریاستی سرپرستی حاصل ہے۔ ماضی میں پاکستان کے سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے بھی ایسا ہی کچھ کہا تھا۔ یاد ہے آپ کو؟ ہاں بالکل وہی بیان، جو انہوں نے مختاراں مائی کے بارے میں رائے دیتے ہوئے دیا تھا۔

مشرف نے تو یہاں تک بھی کہہ دیا تھا کہ ''پاکستان میں ریپ ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے، ریپ کروا لو دولت و شہرت کے ساتھ کینیڈا کا ویزہ بھی مل جائے گا‘‘۔ یقینی طور پر انہیں علم نہیں کہ اس جرم کا شکار بننے والی خواتین پر کیا بیتتی ہے۔ پاکستان میں کچھ سیاستدان بھی 'وطن عزیز‘ کی عالمی ساکھ بہتر بنانے کی کوشش میں سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں کے بارے میں ایسے بیان دیتے رہتے ہیں۔ یوں بنتا ہے قومی بیانیہ۔

اور اب تو بہت سے لوگ دل سے اس بات پر یقین کرنے لگے ہیں لیکن اس تیقن کے باوجود کچھ موقع ملنے پر مغرب تو دور کی بات ہے بلکہ کسی بھی بیرون ملک سیٹل ہونے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ کیونکہ انہیں دل سے پتا ہے کہ معاملات اتنے سیدھے نہیں۔

اور اب اگر طالبان جنگجوؤں کے ترجمان سہیل شاہین نے بھی ایسا ہی بیان دے دیا تو ہنگامہ کیسا؟ اس گروہ کی پرتشدد کارروائیوں کی کہانیاں کس کو معلوم نہیں؟ اگر کوئی افغان طالبان کے انتہائی سخت رویوں سے ناواقف ہے تو اسے پاکستان تحریک طالبان کے بارے میں کچھ تو علم ضرور ہو گا۔

مذہب کے نام پر حاصل کی گئی طاقت انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے، اس کی مثالیں موجود ہیں۔ حضرت انسان کو صرف اس بارے میں سوچنا چاہیے، صرف جذبات کی رو میں بہہ کر کہی سنی پر یقین نہیں کر لینا چاہیے۔

ایک دہائی سے زائد عرصے تک یورپ میں قیام کے دوران مجھے ایسے کئی مہاجرین اور تارکین وطن بھی ملے، جو صرف اور صرف اقتصادی مہاجرت کر کے یورپی ممالک تک پہنچے۔ ان سے گفتگو میں مجھے اندازہ ہوا کہ 'وطن عزیز‘ میں سب کچھ ٹھیک ہے لیکن اقتصادی حالات ٹھیک نہیں۔

ہیں بھائی؟ اقتصادی حالات ٹھیک نہیں لیکن باقی سب کچھ ٹھیک ہے؟ عجیب بات معلوم نہیں ہوتی یہ؟ ان کو بھی میں نے یہی کہتے سنا کہ یہ مہاجرین اپنے ملکوں کا نام بدنام کر رہے ہیں ورنہ حالات اتنے برے بھی نہیں۔

کسی مسئلے کے بارے میں عمومی بیان نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ میں ذاتی طور پر ایسے پاکستانی اور افغانوں کو بھی جانتا ہوں، جنہیں ان کے ممالک میں حقیقی خطرات لاحق تھے اور اگر وہ ہجرت نا کرتے تو ان کی جان کو بھی خطرات تھے۔

Deutsche Welle Asien Urdu Atif Baloch
عاطف بلوچ کے مطابق ریاستی سطح پر تخلیق کردہ بیانیے ہی عوامی سوچ کا تعین کرتے ہیں۔تصویر: DW/P. Henriksen

لیکن مسئلہ یہ نہیں کہ کون کس محرک کے تحت مہاجرت اختیار کر رہا ہے؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ مسئلہ تو ہے نا؟ اسے کون حل کرے گا؟ بیس سالہ افغان جنگ میں امریکی اتحادی افواج کی ناکامی پر بھی کافی بحث ہو گئی۔ الزام تو کسی پر بھی عائد کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں ہمیں اپنے کردار پر بھی نظر ثانی کرنا ہو گی۔

پرکھا جائے تو خوشحال زندگی و تابناک مستقبل دراصل ریاستی پالیسیوں کی بدولت ہی ممکن ہیں۔ منافقانہ رویوں اور دوہری شخصیت کے حامل افراد والے معاشروں میں بہتر زندگی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا مشکل ہے۔

صرف خلوص دل سے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے، یقین جانیے بہت سے معاملات خود ہی درست ہو جائیں گے۔ مذہب اہم تاہم ذاتی معاملہ ہے۔ آج کل کے سرمایہ دارانہ نظام میں خوشحال زندگی کی خاطر گلوبل ویلج کا حصہ بننا ہو گا۔