1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریپ جسمانی ہوس ہے یا طاقت کا اظہار؟‬

سعدیہ احمد
16 نومبر 2020

اگر ہم مشرقی معاشرے کی اعلی اقدار کا حوالہ دیتے ہیں تو ضروری ہو گا کہ اپنے بچوں اور عورتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ مدینہ کی ریاست یہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3lLdK
Pakistan Islamabad | Protest gegen Vergewaltigung
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed

انسانی فطرت بھی کچھ عجیب ہے۔ جب کوئی بھی مصیبت خود پر گزرے اسے بھرپور طریقے سے محسوس کرتا ہے۔ اس پر روتا ہے۔ گلہ کرتا ہے۔ لیکن اگر یہی تکلیف کسی اور پر گزرے تو یا تو اس معاملے کی نفی کی کوشش کرتا ہے یا پھر یوں نظر انداز کر دیتا ہے جیسے یہ محض ایک نمبر ہو۔ یعنی زندہ سلامت جیتے جاگتے انسانوں کی آہیں بھی ہندسوں سے بڑھ کر نہیں لگتیں۔ اسی لیے آئے دن سوشل میڈیا پر کوئی نہ کوئی دل کو دہلا دینے والی خبر آتی ہے جس کے سوشل میڈیا ٹرینڈ چلائے جاتے ہیں۔ چند ہی دن میں بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔

آج کل چلنے والا سب سے اہم ٹرینڈ کشمور میں چار سالہ بچی کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے حوالے سے ہے۔ بچی کی ماں کراچی سے کشمور نوکری کی تلاش میں گئی اور وہاں جو کچھ ہوا اس پر انسانیت کا سر شرم سے جھکنا نہیں گرنا بنتا ہے۔ پہلے بچی کی ماں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں یہی غیر انسانی فعل اس کی چار سالہ بچی کے ساتھ چار لوگوں نے لگاتار کیا۔ مرکزی ملزم گرفتار ہو چکا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور آخری واقعہ ہے؟ اگر نہیں، تو وہ کون سے عوامل ہیں جو انسان کو ایسا عمل کرنے کی طرف مائل کرتے ہیں ؟

یہ بھی پڑھیے: پانچ سالہ بچی سے انسانیت سوز سلوک

جب موٹروے پر خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی تو بہت سے لوگوں نے ان ہی کو دوش دیا کہ رات کو نکلی ہی کیوں۔ لیکن اگر ہم اس چار سالہ بچی علیشہ کو دیکھیں تو اس سلسلے میں کیا تاویل ہو گی؟ ایک کمسن بچی کیونکر چار آدمیوں کی ہوس کا نشانہ بنی؟ بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والوں کی نفسیات آخر ہے کیا؟

’ریپ، غیرت کے نام پر قتل ختم کیا جائے‘

اس سلسلے میں ہم نے ماہر نفسیات زہرا کمال سے رابطہ کیا جو پچھلے بیس سال سے بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی زیادتی کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ زہرا کمال کے بقول، ''اس عمل میں ہوس سے زیادہ طاقت اور اختیار کا اظہار اہم ہے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کی تعداد ان ہی پر مشتمل ہوتی ہے جو بچپن میں کسی جسمانی، نفسیاتی، یا جنسی تشدد کے عمل سے گزر چکے ہوں۔‘‘

کراچی یونیورسٹی میں شعبہ نفسیات کی پروفیسر ڈاکٹر انیلہ امبر ملک کا کہنا ہے کہ وہ بچے جو اس عمل کے بعد زندہ بچ جاتے ہیں ان کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہ شروع میں تو بار بار اسی لمحے کو جیتے ہیں اور کچھ عرصے بعد شب بیداری اور ڈراؤنے خواب دیکھنے کے عارضے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان کے خوابوں کا تعلق بھی ان کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی سے ہی ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: جنسی زیادتیوں میں ہمارا کتنا ہاتھ ہے؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان بچوں کی نفسیاتی نشوونما کے لیے وہ کیا اقدامات کیے جائیں جن سے ان کی ذہنی صحت بحال ہو سکے۔ زہرا کمال کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں بچوں کا اعتماد بحال کرنا، ان سے گفتگو کرنا، اور ان کی پرائیویسی کا احترام کرنا بے حد ضروری ہے۔

شاید آپ نے بھی نوٹ کیا ہو کہ کچھ عرصے سے یا تو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملات بڑھ گئے ہیں یا ظاہر ہونے لگے ہیں۔ ممتاز سماجی کارکن ماروی سرمد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس سلسلے میں ڈیٹا ہی اتنا کم ہے کہ اس بات کا پتہ لگانا خاصا ناممکن یے۔ ان کے نزدیک اس معاملے کے ساتھ جو شرم کا عنصر شامل ہو چکا ہے وہ لوگوں کو یہ واقعات رپورٹ کرنے سے روکنا ہے۔ خاص طور پر لڑکوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کو تو لڑکیوں سے بھی زیادہ چھپایا جاتا ہے۔

سماجی کارکن نایاب گوہر جان کا کہنا تھا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ ان معاملات کو سوشل میڈیا کے ذریعے ہی سامنے آنے کا موقع ملتا ہے حالانکہ یہ فرض ریاست کا ہے۔ صحافی صباحت زکریا کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا کسی حد تک ان واقعات کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ 

یہ بھی پڑھیے: پاکستان میں جنسی تعلیم کی اشد ضرورت ہے

ماروی سرمد، نایاب گوہر جان اور صباحت زکریا نے اسی بات پر اتفاق کیا کہ ان معاملات کے سدباب کے لیے مزید قوانین کی نہیں بلکہ اصلاحات کی ضرورت ہے۔ صباحت زکریا کے بقول یہ امر اہم ہے کہ عورتوں کو خودمختار کیا جائے۔ ذہنی صحت کو نظرانداز نہیں کیا جائے۔ حکومت لوگوں کو سیکورٹی فراہم کرے تاکہ وہ یہ مسائل رپورٹ کر پائیں۔

یہیں ماروی سرمد نے یہ بھی کہا کہ پولیس میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس جرم کی تفتیش کرنے والی افسران خواتین ہوں جنہیں اس کی خصوصی ٹریننگ دی جائے کہ ریپ کا شکار ہونے والوں سے کیسے ڈیل کرنا ہے۔

ماہر نفسیات اور اہم سماجی کارکنوں گفتگو کر کے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ریپ کا تعلق کسی کے لباس سے نہیں بلکہ ریپ کرنے والے کی سوچ سے ہے۔ جہاں طاقت کا اظہار کسی کو ایذاء دے کر کیا جائے اور الٹا زیادتی سے متاثرہ شخص پر ہی 'عزت لٹنے ' کا بوجھ ڈالا جائے وہاں ریپ کلچر کا پروان چڑھنا لازم ہے۔ اگر ہم مشرقی معاشرے کی اعلی اقدار کا حوالہ دیتے ہیں تو ضروری ہو گا کہ اپنے بچوں اور عورتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ مدینہ کی ریاست یہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں