1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مون سون میں بیس کروڑ گیلن بارشی پانی محفوظ کرنے کا منصوبہ

12 جولائی 2022

پنجاب کی حکومت لاہور شہر میں اڑھائی ارب کی لاگت سے مون سون کے بارشی پانی کو محفوظ کرکے دوبارہ استعمال کرنے کے لیے گیارہ مقامات پر زیر زمین واٹر اسٹوریج تعمیر کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4E1Ji
Pakistan Wassermanagement Projekt in Lahore
تصویر: Farhan Bela/WASA

ایک مفید منصوبہ

اس منصوبے پر کام کرنے والے ماہرین کے مطابق اس منصوبے کی تکمیل کے بعد مون سون کے سیزن میں نہ توبارشی پانی سڑکوں پر کھڑا ہوگا اور نہ ہی سڑکیں بارشی پانی کھڑا ہونے سے توڑ پھوڑ کا شکار ہوں گی۔ اس سے ٹریفک میں روانی بھی برقرار رکھی جا سکے گی اور بارشی حادثات سے بچنا بھی ممکن ہو سکے گا۔ ''اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ پارکوں کی آبیاری کے لیے انڈر گراؤنڈ واٹر استعمال نہیں کرنا پڑے گا بلکہ یہی ذخیرہ کردہ بارشی پانی پارکوں میں آبپاشی کے لیے استعمال  ہوگا، اس طرح ٹیوب چلانے کے لیے استعمال کی جانے والی بجلی کی بھی بچت ہو گی۔‘‘

 بارش کتنی فائدہ مند ہوتی ہے؟

ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں پنجاب ''آب پاک اتھارٹی‘‘ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر سید زاہد عزیز نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ لاہور میں ہونے والی اوسط درجے کی بارش لاہور شہر کو تقریباً دو کروڑ گیلن پانی مہیا کرنے کا باعث بنتی ہے اگر مون سون کے سیزن میں کم از کم دس بار اچھی بارشیں بھی ہو جائیں تو اس سے بیس  کروڑ گیلن پانی ملے گا جسے مختلف مفید مقاصد کے لیے دوبارہ کام میں لایا جا سکتا ہے۔

بلوچستان اور سندھ کے مابین پانی کی تقسیم کا دیرینہ تنازعہ شدید

یہ منصوبہ کامیابی سے کہاں کہاں کام کر رہا ہے؟

سید زاہد عزیز نے بتایا کہ بارشی پانی کو دوبارہ استعمال کرنے کے لیے زیر زمین محفوظ کرنے کا پہلا منصوبہ کامیابی سے لاہور کے لارنس روڈ پر مکمل کیا جا چکا ہے یہاں بارش کے پانی کو ایک ٹینس کورٹ کے نیچے ذخیرہ کیا جا رہا ہے اور یہاں پندرہ لاکھ گیلن پانی اسٹور کیا جا رہا ہے۔ دو ایسے مزید منصوبے کشمیر روڈ اور شیرانوالا گیٹ کے پاس اندرون لاہور کے علاقے میں مکمل کئے جا چکے ہیں اور اس سال یہاں بارشی پانی سٹور کیا جا رہا ہے۔

Pakistan Wassermanagement Projekt in Lahore
گیارہ مقامات پر زیر زمین واٹر اسٹوریج تعمیر کرنے کے منصوبےتصویر: Farhan Bela/WASA

سید زاہد عزیز نے بتایا کہ قذافی سٹیڈیم کے نزدیک بھی ایک بڑا زیر زمین سٹوریج بنایا جائے گا جس میں چالیس لاکھ گیلن پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہو گی۔ حکومت پنجاب نے اس سال کے بجٹ میں وارث روڈ کے مقام پر ایک اور واٹر سٹوریج بنانے کے لیے رقم مختص کی ہے۔ مزید ایسے اسٹوریجز جن علاقوں میں بنائے جائیں گے ان میں تاجپورہ، فروٹ مارکیٹ ملتان روڈ، کریم پارک اور رسول پارک جیسے علاقے بھی شامل ہیں۔ 

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں واشنگٹن میں زیر زمین ایک سرنگ سے پانی اکٹھا کرکے دریا میں ڈالنے کے ایک منصوبے کا افتتاح ہوا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہاں ستائیس میل لمبی اور چونتیس فٹ چوڑی سرنگ بنائی گئی ہے۔ جاپانی شہر اوساکا سمیت کئی دیگر ملکوں میں بھی بارشی پانی کے نکاس کے لیے ایسے طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

کراچی کیوں ڈوبا؟

سید زاہد عزیز بتاتے ہیں کہ بارشی پانے سے نمٹنے کے دو ہی مؤثر طریقے رہے ہیں یا تو پانی کو زیر زمین ذخیرہ کر لیا جائے یا پھر اسے نالوں کے ذریعے سمندر یا دریا تک پہنچا دیا جائے۔ کراچی میں ماضی میں ایسے نالے موجود تھے جن کے ذریعے بارشی پانی سمندر میں چلا جاتا تھا۔ بعد میں ان نالوں پر عمارتیں بن گئیں ان میں سرکاری عمارتیں بھی شامل ہیں اور کئی جگہوں پر یہ نالے تجاوزات کے نرغے میں آ گئے۔

آبی مذاکرات: ریسورس نیشنلزم کا شکار

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کراچی کا دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں بارشی پانی کی نکاسی کا ذمہ دار ایک ادارہ نہیں ہے۔  کراچی واٹر بورڈ، کے ایم سی اور کے ڈی اے  جیسے ادارے ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالتے رہتے ہیں۔

کراچی کا مئسلہ کیسے حل کیا جائے؟

سید زاھد عزیز کے مطابق کراچی کے بارشی پانی کا مئسلہ آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے ہر سال مون سون آنے پر ہی سرگرمی دکھانے کی بجائے پہلے سے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ کراچی میں اس مسئلے کے حل کے لیے پروفیشنل لوگوں سے کام لیا جائے، سیاسی مداخلت ختم ہونی چاہیے، نالے بحال کروانے چاہیں اور کچھ پانی سمندر میں اور باقی زیر زمین سٹوریجز میں محفوظ کیا جانا چاہیے۔ ''یہ ضروری ہے کہ ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور شہر میں اگلے سالوں میں ہونے والی وسعت کو سامنے رکھ کر لانگ ٹرم منصوبہ بندی کریں۔‘‘

پاکستان میں پانی کی قلت شدید

Pakistan Wassermanagement Projekt in Lahore
واسا کی ٹیم جگہ جگہ استعمال شدہ پانی کو مزید استعمال کے قابل بنانے کے لیے کام کر رہی ہےتصویر: Farhan Bela/WASA

پہلے زیر زمین ترقیاتی کام ہونے چاہیں

سید زاہد عزیز سید زاہد عزیز (جو کہ پاکستان واٹر آپریٹرز نیٹورک کے بھی سربراہ ہیں)  نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ یہ کام آسان ہے کہ ایک سڑک، انڈرپاس یا فلائی اوور بنا کر لوگوں کو اپنی کارکردگی دکھا دی جائے لیکن یہ مشکل ہے کہ پہلے زیر زمین اسٹرکچر بنایا جائے پھر اس کے اوپر تعمیرات کی جائیں تاکہ بارش کی صورت میں انڈرپاس اور سڑکیں بند نہ ہوں۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ جب ایک دفعہ سڑک اور انڈرپاس بن جاتا ہے تو اس کے نیچے پانی کے سٹوریج بنانا آسان نہیں ہوتا۔

کام مشکل لیکن ناممکن نہیں

زاہد عزیز نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ کراچی میں بارشی پانی سے نمٹنا کوئی ناممکن کام نہیں ہے، ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہمارے پاس وسائل کتنے ہیں اور ہم کتنے عرصے کے لیے اور کس درجے کی شدت والی بارشوں کے لیے سسٹم ڈیزائن کرنا چاہتے ہیں۔ لاہور میں ایک سو بیس ملی میٹر بارش کے لیے نظام بنایا گیا ہے۔

مرطوب زمین، آلودہ پانی کو شفاف بنانے کا آسان طریقہ

سید زاہد عزیر نے بتایا کہ عالمی ادارے ایسے منصوبوں کے لیے فراخدلی سے مدد کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ ہم نے جرمنی کے ترقیاتی ادارے جی آئی زیڈ کو درخواست کی کہ لاہور کی سڑکوں پر بہت پانی کھڑا ہوتا ہے انہوں نے کمپوٹرائزڈ تحقیق کی مدد سے ہمیں بتایا کہ کتنی بارش ہونے کی صورت میں کس علاقے میں کتنا پانی کھڑا ہوگا۔ یہ ڈیٹا حاصل کرنے کے بعد ہم نے ان علاقوں کی نشاندہی کرلی جن میں زیر زمین اسٹوریج بننے تھے۔ کراچی میں بھی ایسے کسی بھی منصوبے سے پہلے شہر کا تفصیلی سروے ہونا چاہیے۔

یاد رہے سید زاہد عزیر واسا لاہور کے سربراہ کے طور پر کئی مساجد میں وضو کے لے استعمال شدہ پانی اسٹور کرکے پارکوں کو پانی دینے کے لیے اسے استعمال کرنے کے منصوبے بھی پایہ تکمیل تک پہنچا چکے ہیں۔