1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آبی مذاکرات: ریسورس نیشنلزم کا شکار

30 مئی 2022

پاکستان اور بھارت کے وفود نے ایک بار پھر انڈس واٹر مذاکرات کا آغاز بھارت کے دارالحکومت نیو دہلی میں کیا لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ جب تک دونوں ممالک ریسورس نیشنلزم سے نہیں نکلیں گے پانی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

https://p.dw.com/p/4C3Tf
Indien Ganges Umweltverschmutzung
پاکستان اور بھارت کے مابین آبی وسائل کی تقسیم ایک بہت بڑا تنازعہ ہےتصویر: Prabhakarmani Tewari/DW

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ کیونکہ اس برس دریائے جہلم، سندھ اور چناب میں پانی کا بہاؤ کم ہے، اس لیے پاکستان کو شک ہے کہ یہ بہاؤ بھارتی اقدامات کی وجہ سے ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ جب تک دونوں ممالک ریسورس نیشنلزم کے چکر سے نہیں نکلیں گے، اس وقت تک پانی کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔

مذاکرات کا پس منظر

یہ اجلاس ہر سال وفود کی سطح پر ہوتا ہے اور اس میں آبی مسائل زیر بحث آتے ہیں۔

دونوں ممالک کے وفود کے درمیان آخری مرتبہ ملاقات مارچ کے مہینے میں اسلام آباد میں ہوئی تھی، جہاں حکومت پاکستان کے وفد نے بھارت کے کچھ ہائیڈل پراجیکٹس پر  تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

پاکستانی وفد نے پاکل اور کنجلاج  پروجیکٹس کے کچھ پہلوؤں پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور بھارتی حکومت سے یہ درخواست کی تھی کہ اسے ان پروجیکٹس کی سائٹ کا دورہ کرنے دیا جائے۔ تاہم بھارت نے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ انگریزی روزنامہ ڈان کو پاکستانی وفد کی قیادت کرنے والے سید  محمد مہر علی شاہ نے بتایا کہ پاکستانی وفد زیرتعمیر پروجیکٹس کا وزٹ نہیں کرے گا، لیکن ان مسائل کو اجلاس میں بھارت کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

کشن گنگا منصوبہ:پاکستان کا عالمی بینک سے رابطہ، کیا ملے گا؟

 

ریسورس نیشنلزم

مہران یونیورسٹی سندھ سے تعلق رکھنے والے پانی کے امور کے ماہر عرفان چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو ریسورس نیشنل ازم کے نعروں سے نکلنا پڑے گا اور فوائد کو شیئر کرنے والے اصولوں کی طرف آنا پڑے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' اس طرح کے مذاکرات میں کسی بھی پاور پروجیکٹ یا آبی ذخائر کے پروجیکٹ پر ٹیکنیکل اعتراضات صرف قوم پرستی کو ابھارنے کے لیے اور اس کو فروغ دینے کے لیے  اٹھا ئے جاتے ہیں۔ اس طرح کے معمولی اعتراضات میں کوئی جان نہیں ہوتی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور بھارت  اس سوچ سے نکلیں کہ سارا پانی کسی ایک ملک کو ہی استعمال کرنا ہے۔ دنیا میں کئی پڑوسی ممالک ریسوریس شیئرنگ کی طرف جارہے ہیں اور ہم ریسوریس نیشنلزم کا شکار ہوئے ہیں۔‘‘

Karte Indus Wassersystem englisch

عرفان چوہدری کے مطابق اگر دونوں ممالک میں اعتماد اور دوستی ہو تو کوئی بھی پاور پروجیکٹ بھارت یا پاکستان بنا سکتا ہے اور دونوں ممالک بجلی کی تقسیم کا فارمولا طے کر سکتے ہیں۔ ''اس سے نہ صرف پروجیکٹ کی لاگت کم ہوگی بلکہ دونوں ممالک میں توانائی کا بحران بھی کسی حد تک کم ہو جائے گا۔‘‘

 پاکستان کے تحفظات

 تاہم کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے اعتراضات میں کسی حد تک وزن ہے۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے آبی امور کے ماہر ڈاکٹر عارف محمود کا کہنا ہے کہ پاکستان کو شبہ ہے کہ بھارتی حکومت کے اقدامات کی وجہ سے جہلم، چناب اور دریائے سندھ میں پانی کم ہوا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس سال دریائے سندھ، جہلم اور چناب میں پانی کا بہاؤ بہت کم ہے۔ یہ پچھلے سال کی نسبت بھی کم ہے اور اگر دس سال کا اوسط بھی نکالا جائے، تو یہ اس لحاظ سے بھی کم ہے۔ اس کے برعکس بھارت کے زیر استعمال تین مشرقی دریا وں یعنی ستلج، بیاس اور راوی میں جو پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز بنائے گئے ہیں ان میں پانی معمول سے زیادہ ہے۔‘‘

پاک بھارت تنازعہ: مسائل کیا ہيں اور ان کا حل کيوں ضروری ہے؟

ڈاکٹر عارف محمود کے مطابق اس صورتحال پر پاکستان پریشان ہے اور شاید اسی وجہ سے اس نے کچھ بھارتی پاور پروجیکٹس کی سائٹس کے دورے کرنے کی اجازت مانگی تھی، جو بھارت نے مسترد کردی ہے۔ پاکستان کو اس بات کا شبہ ہے لیکن پاکستان کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں۔

عرفان چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ نئی دہلی سیلاب کے حوالے سے وارننگ نہیں دیتا، جو دینا لازمی ہے۔ ''اگر بھارت بغیر اطلاع دیئے راوی، ستلج یا بیاص میں پانی چھوڑتا ہے تو اس سے پاکستان کا آبی ڈھانچہ متاثر ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں یہ موضوع بھی اس اجلاس میں زیر بحث آیا ہوگا۔‘‘