1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لکسمبرگ: اربوں کا ٹیکس بچانے میں معاون

Bernd Riegert / امجد علی6 نومبر 2014

ٹیکس بچانے کی کارروائیوں میں لکسمبرگ کے کردار کے حوالے سے نئے انکشافات اس یورپی ریاست کے سابق وزیر اعظم اور یورپی کمیشن کے موجودہ صدر ژاں کلوڈ یُنکر کے لیے ایک مسئلہ بن سکتے ہیں، ڈی ڈبلیو کے بیرنڈ ریگرٹ کا تبصرہ۔

https://p.dw.com/p/1DiOb
لکسمبرگ کے سابق وزیر اعظم اور یورپی کمیشن کے موجودہ صدر ژاں کلوڈ یُنکر
لکسمبرگ کے سابق وزیر اعظم اور یورپی کمیشن کے موجودہ صدر ژاں کلوڈ یُنکرتصویر: picture-alliance/dpa

ممکن ہے کہ یہ بات ساری دنیا کے علم میں ہو کہ لکسمبرگ گزشتہ کئی برسوں سے اپنے انتہائی نرم ٹیکس قوانین کے ذریعے کاروباری اور صنعتی اداروں کو اپنے منافع پر نہ ہونے کے برابر ٹیکس ادا کرنے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ جرمنی کے پڑوس میں واقع یہ چھوٹی سی یورپی ریاست اپنے اسی کاروباری ماڈل کی وجہ سے دنیا بھر کے مالیاتی حلقوں میں بے حد مقبول ہے۔ بڑی بڑی کمپنیوں کو مشاورت فراہم کرنے والا ادارہ ’پرائس واٹر ہاؤس کُوپرز‘ باقاعدہ سرکاری طور پر اپنی وَیب سائٹ پر لکسمبرگ کے ایسے سرکاری اہلکاروں کے ساتھ اپنے تعاون کو سراہتا ہے، جو اُس کے خیال میں ٹیکسوں سے بچنے کے ’غیر معمولی‘ طریقے تلاش کرنے میں بہت ہی ’اختراعی‘ ذہن رکھتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار بیرنڈ ریگرٹ
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار بیرنڈ ریگرٹ

لکسمبرگ میں ’پرائس واٹر ہاؤس کُوپرز‘ میں دو ہزار کارکن کام کرتے ہیں اور ایسا یقیناً اس ملک کے خوبصورت قدرتی مناظر یا پھر ثقافتی خزانوں کی وجہ سے نہیں ہے۔ اس ادارے کی طرح کے اور بھی درجنوں ادارے آج کل لکسمبرگ میں سرگرمِ عمل ہیں۔ دنیا بھر سے سینکڑوں کمپنیاں اس چھوٹی سی یورپی ریاست کی طرف کھنچی چلی آئی ہیں۔ یہ بات اُن تمام سیاستدانوں کے بھی علم میں ہے، جو اب لکسمبرگ اور اُس کے سابق وزیر اعظم ژاں کلوڈ یُنکر کی جانب انگشت نمائی کر رہے ہیں۔

دیکھا جائے تو یورپی یونین کے کئی رکن ممالک ٹیکسوں سے متعلق قوانین اور ٹیکسوں میں بچت کے نت نئے ماڈلز کے معاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ بازی میں مصروف ہیں۔ کئی ایک ملک بین الاقوامی سطح پر باقاعدہ ٹیکس بچانے والوں کی جنت کہلاتے ہیں۔ کاروباری اور صنعتی اداروں کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاروں کو بھی یہ خدمات پیش کرنے والے ملکوں میں ہالینڈ، آئر لینڈ، برطانیہ، مالٹا اور قبرص کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔ ’لکسمبرگ لِیکس‘ کے نام سے منظرِ عام پر آنے والے نئے انکشافات نے اگرچہ ایک بار پھر ٹیکسوں میں بچت کے ان ’مشکوک‘ طریقوں پر سے پردہ اٹھایا ہے لیکن ممکنہ طور پر ساری دنیا یہ باتیں پہلے سے بھی جانتی ہے۔

لکسمبرگ یا ٹیکسوں کی بچت کے حوالے سے جنت کہلانے والے دیگر ممالک میں ٹیکسوں سے بچنا یا موجود قوانین کے تحت ٹیکسوں کی جمع تفریق کرنا بظاہر غیر قانونی نہیں ہے۔ عالمگیریت کے دور میں بین الاقوامی سطح پر سرگرمِ عمل کمپنیاں ٹیکسوں میں بچت کے بہترین سے بہترین ماڈل کا انتخاب کرتی ہیں اور اس سلسلے میں مختلف ملکوں کے درمیان جاری مقابلہ بازی کا انتہائی بے شرمی سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم او ای سی ڈی یا پھر گروپ جی ٹوئنٹی کے دائرے میں اس طرح کے کاروباری نمونوں کو محدود کرنے کی کوششیں ابھی اپنے ابتدائی مرحلے میں ہیں۔ حال ہی میں پچاس ملکوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ آپس میں ٹیکسوں سے متعلق معلومات اور بینک ڈیٹا کا تبادلہ کریں گے۔ لیکن دیکھا جائے تو اصل معاملہ اُن افراد یا کمپنیوں کو بے نقاب کرنے کا ہے، جو ٹیکس چوری کرتی ہیں یعنی ایک جرم کا ارتکاب کرتی ہیں تاہم لکسمبرگ کے معاملے میں ٹیکسوں سے بچنے کے الفاظ استعمال کیے جا رہے ہیں، جو قابلِ تعزیر اقدام نہیں گِنا جاتا۔

’درحقیقت یہ اقدام اخلاقی اعتبار سے قابلِ نفرت ہے کیونکہ اس طرح اُن ملکوں کو اربوں کے حساب سے نقصان ہوتا ہے، جہاں یہ کمپنیاں حقیقت میں سرگرمِ عمل ہوتی ہیں‘
’درحقیقت یہ اقدام اخلاقی اعتبار سے قابلِ نفرت ہے کیونکہ اس طرح اُن ملکوں کو اربوں کے حساب سے نقصان ہوتا ہے، جہاں یہ کمپنیاں حقیقت میں سرگرمِ عمل ہوتی ہیں‘تصویر: Fotolia/ Tatjana Balzer

درحقیقت یہ اقدام اخلاقی اعتبار سے قابلِ نفرت ہے کیونکہ اس طرح اُن ملکوں کو اربوں کے حساب سے نقصان ہوتا ہے، جہاں یہ کمپنیاں حقیقت میں سرگرمِ عمل ہوتی ہیں۔ ترقیاتی امداد سے متعلق تنظیم ’ایکشن ایڈ‘ ایک مدت سے اس جانب اشارہ کر رہی ہے کہ اس طرح بڑی بڑی کمپنیاں ترقی پذیر ملکوں میں ٹیکس ادا کرنے سے بچ جاتی ہیں۔ ٹیکسوں کی مَد میں بچائی جانے والی یہ رقوم ترقیاتی امداد کے طور پر دی جانے والی رقوم سے زیادہ ہوتی ہیں۔ ایسے میں اصل اسکینڈل یہ ہے کہ لکسمبرگ جیسے ممالک ان قابلِ اعتراض طریقوں کو گزشتہ کئی عشروں سے نہ صرف برداشت کر رہے ہیں بلکہ مزید فروغ دے رہے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ آیا یورپی کمیشن کے صدر کے طور پر ژاں کلوڈ یُنکر اس طرح کے معاملات کی تفتیش کے لیے درست شخصیت ہوں گے۔ لکسمبرگ کے وزیر اعظم کے طور پر وہ اُن فیصلوں کی ذمے داری میں برابر کے شریک ہیں، جن کی اب اُنہیں تحقیقات کرنا ہیں۔ کیا وہ واقعی غیر جانبدار اور قابلِ اعتبار رہ سکیں گے؟ شاید اُنہیں ان تحقیقات سے مکمل طور پر الگ تھلگ ہو جانا چاہیے۔ اگر اُنہوں نے ایسا نہ کیا تو یورپی نمائندوں کے ایک غیر جانبدار محافظ کے طور پر اُن کی ساکھ بہت جلد تباہ بھی ہو سکتی ہے۔ نئے نئے منتخب ہونے والے یورپی کمیشن کے لیے یہ کوئی اچھا آغاز نہیں ہو گا۔