1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قطر میں زیر علاج فلسطینی دوبارہ چل پھر سکنے کے لیے پر امید

22 جون 2024

قطری امیر نے دسمبر میں غزہ کی جنگ میں شدید زخمی ہونے والے 1500 فلسطینیوں کو علاج کے لیے قطر لانے کا اعلان کیا تھا۔ زیادہ تر زخمی اسرائیلی بمباری کی وجہ سے اپنے جسمانی اعضاء سے محروم ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4h4HH
غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اب تک اسرائیل کی فوجی کارروائی میں 85 ہزار سے زائد 
 فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں
غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اب تک اسرائیل کی فوجی کارروائی میں 85 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہو چکے ہیںتصویر: Mahmoud Essa/AP/picture alliance

شاہد القوطاطی غزہ کی جنگ میں زخمی ہونے  والے فلسطینیوں کے ایک ایسے گروپ کا حصہ ہیں، جو قطر میں طبی امداد حاصل کر رہا ہے۔ القوطاطی کو امید ہے کہ وہ اگلے سال تک ایک مصنوعی ٹانگ استعمال کرتے ہوئے خود چلنے پھرنے کے قابل ہو جائیں  گی۔

اسرائیلی فوج نے اکتوبر میں غزہ میں القوطاطی کے گھر پر بمباری کی۔ حملے کی شدت کے سبب وہ اور ان کے شوہر گھر کی دوسری منزل سے گلی میں گر پڑے۔ بعد ازاں انہیں اسرائیلی فوج کے غزہ سٹی میں واقع الشفا ہسپتال کو خالی کرنے کے اسرائیلی حکم کے سامنے مجبور ہونا پڑا۔ انہیں ایمبولینس تک دستیاب نہیں تھی۔

اسرائیلی فوجی کی غزہ میں نو ماہ سے جاری بمباری میں ذخمی ہونے والے افراد میں سے بہت سے اپنے جسمانی اعضا سے محروم ہو چکے ہیں
اسرائیلی فوجی کی غزہ میں نو ماہ سے جاری بمباری میں ذخمی ہونے والے افراد میں سے بہت سے اپنے جسمانی اعضا سے محروم ہو چکے ہیںتصویر: Abed Rahim Khatib/dpa/picture alliance

23 سالہ نوجوان خاتون شاہد القوطاطی  نے دوحہ کے ایک ہسپتال سے روئٹرز کو بتایا، ''انہوں (اسرائیلی فوج) نے ہمیں وہیل چیئر پر جانے پر مجبور کیا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''مجھے امید ہے کہ ڈاکٹر مجھے مصنوعی اعضاء لگا دیں گے تاکہ میں واکر اور ان سب چیزوں کو چھوڑ دوں اور خود ہی چل سکوں۔‘‘

القوطاطی کی بائیں ٹانگ گھٹنے کے اوپر سے کٹی ہوئی ہے اور وہ ان بہت سے فلسطینی شہریوں میں سے ایک ہیں، جو غزہ پٹی پر اسرائیلی فضائی حملوں یا گولہ باری کے بعد کم ازکم ایک جسمانی عضو سے محروم ہو چکے ہیں۔

اسرائیلی حملوں کے دوران زخموں کی شدت کی وجہ سے بچوں سمیت بہت سے فلسطینیوں کے اعضاء کاٹ دیے گئے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس فوجی کارروائی کا مقصد فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کو ختم کرنا اور غزہ میں اس کی قید میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانا ہے۔

قطر کے امیر نے دسمبر 2023 میں غزہ سے 1500 زخمی فلسطینیوں کے علاج کے لیے قطر لائے جانے کے عمل کا آغاز کروایا تھا۔ اب تک  پانچ سو کے قریب زخمی فلسطینی دوحہ پہنچ چکے ہیں۔ حمد جنرل ہسپتال میں میڈیکل ٹراما کے ڈائریکٹر ساندرو ریزولی نے کہا، ''ہمارے مریضوں کی یہ کہانی غزہ سے شروع ہوتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر بمباری اور دیگر فوجی کارروائیوں کا شکار ہوئے۔‘‘

مختلف ممالک اور این جی اوز نے زخمیوں کے علاج کے لیے غزہ پٹی میں فیلڈ ہسپتال قائم کر رکھے ہیں
مختلف ممالک اور این جی اوز نے زخمیوں کے علاج کے لیے غزہ پٹی میں فیلڈ ہسپتال قائم کر رکھے ہیںتصویر: European Broadcasting Union

غزہ پٹی میں جنگ اس وقت شروع ہوئی تھی جب حماس کے جنگجوؤں نے گزشتہ برس سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حملہ کر کے تقریباﹰ 1,200 افراد کو ہلاک اور تقریباً 250 کویرغمال بنا لیا تھا۔ اس کے بعد اسرائیل نے فلسطینی سرزمین پر فضائی، زمینی اور بحری حملے شروع کر دیے تھے۔

غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اب تک اسرائیل کی فوجی کارروائی میں 37 ہزار تین سو کے قریب فلسطینی ہلاک اور 85 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اس سال جنوری تک  1,000 سے زیادہ فلسطینی بچے اپنی ٹانگوں سے محروم ہو چکے تھے۔

قطر میں زیر علاج ایک اور فلسطینی خاتون، 27 سالہ وفا ابو سمعان آٹھ ماہ سے حاملہ تھیں، جب ان کے گھر پر حملہ ہوا۔ انہوں نے کہا، ''میرے شوہر اور میرے سسر  شہید ہو گئے۔ میری دو بیٹیاں زخمی ہوئیں۔‘‘ ان کی ایک بیٹی بھی قطر میں زیر علاج ہے جبکہ دوسری زخمی بیٹی ابھی تک غزہ میں ہے۔

ابو سمعان کی دائیں ٹانگ گھٹنے کے نیچے سے کاٹی جا چکی ہیں اور وہ ایک بازو سے بھی محروم ہو چکی ہیں۔ وہ قطر پہنچائے جانے سے پہلے مصر میں تھیں اور وہاں انہوں نے دسمبر کے مہینے میں ایک بچے کو جنم دیا تھا۔ انہوں نے کہا،  ''ہمارا کوئی نہیں بچا۔ ہمارے پاس گھر نہیں، کچھ بھی نہیں۔ ہم یہاں بیٹھے ہیں لیکن ہمارے دل اور دماغ ابھی تک غزہ میں ہیں۔‘‘

ش ر⁄ م م (روئٹرز)

غزہ پٹی میں امدادی سامان پہنچانا مشکل کیوں؟