1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتاسرائیل

غزہ پر اسرائیلی حملے جاری، لبنانی سرحد پر کشیدگی بڑھتی ہوئی

14 جون 2024

غزہ میں جنگ بندی کی کوششیں بدستور تعطل کا شکار ہیں جبکہ اسرائیلی دفاعی افواج غزہ پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ادھر لبنان سے متصل اسرائیلی سرحدوں پر بھی کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4h3N7
Israel | Truppenbewegungen an der Grenze zum Gazastreifen nahe Rafah
سات اکتوبر کے دہشت گردانہ حملے کے بعد سے اسرائیل نے غزہ پٹی میں حماس کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے خصوصی عسکری آپریشن شروع کر رکھا ہےتصویر: Mostafa Alkharouf/Anadolu/picture alliance

عینی شاہدین نے بتایا کہ غزہ پٹی کے مختلف حصوں خاص طور پر وسطی علاقوں میں صبح سویرے متعدد حملے کیے گئے جبکہ وسطی شہر دیر البلح میں واقع الاقصیٰ شہداء ہسپتال میں ایک گیارہ سالہ بچے کی لاش منتقل کی گئی ہے، جو البریج میں واقع ایک پناہ گزین کیمپ پر بمباری کے نتیجے میں مارا گیا تھا۔

ادھر اسرائیلی فوج نے جمعے کے روز کہا کہ وسطی غزہ میں کارروائیاں جاری ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ جنگی طیاروں نے زیتون کے علاقے میں عسکریت پسندوں کے ایک سیل اور 'فوجی ڈھانچے‘ کو نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیلی دفاعی افواج کے مطابق جمعرات کی رات اسی علاقے سے جنوبی اسرائیل کی طرف راکٹ فائر کیے گئے تھے، جس کے بعد اس علاقے پر بمباری شروع کی گئی۔

لبنانی ملیشیا حزب اللہ کے جنگجوؤں کی طرف سے اسرائیلی فوجی اہداف پر راکٹ داغے جانے سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ بدھ اور جمعرات کو کیے گئے یہ حملے اسرائیلی کارروائی میں مارے جانے والے اس کے ایک کمانڈر کی ہلاکت کا بدلہ تھے۔

رفح پر نئے اسرائیلی حملے: جنگ بندی ڈیل اب بھی ممکن، بلنکن

چار اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی پر خوشی، ’274 فلسطینی ہلاک‘

غزہ پٹی میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف اسرائیلی دفاعی افواج کی کارروائیاں شروع ہونے کے بعد سے حزب اللہ اور اسرائیلی افواج کے درمیان بھی تقریباﹰ روزانہ کی بنیادوں پر سرحد پار فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا ہے، جس میں اب شدت آتی جا رہی ہے۔

جی سیون سمٹ میں غزہ تنازعے پر کیا بات ہوئی؟

فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا ہے کہ پیرس حکومت امریکہ کے ساتھ مل کر مشرق وسطیٰ کے خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کام کرے گی۔ جی سیون کے اجلاس کے موقع پر ماکروں نے مزید کہا کہ وہ اس تناؤ میں کمی کی خاطر لبنانی حکام کے ساتھ بھی رابطہ کریں گے۔

دو ریاستی حل کیا ہے اور اس مقصد کے حصول میں کیا کیا مسائل حائل ہیں؟

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے مطابق حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کم کرنے کا واحد حل دراصل غزہ میں جاری تنازعے کا خاتمہ اور وہاں جنگ بندی ہی ہے۔

اٹلی میں جی سیون سمٹ کے موقع پر امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ میں جنگ بندی کی راہ میں اب تک کی سب سے بڑی رکاوٹ حماس کو قرار دیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ اسرائیل امریکہ کی طرف سے تجویز کردہ سیز فائر ڈیل کی حمایت کرتا ہے لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ابھی تک عوامی سطح پر اس بارے میں اعلان نہیں کیا۔ یاد رہے کہ نیتن یاہو کی فار رائٹ حکومت اس مجوزہ ڈیل کے سخت خلاف ہے۔

امریکی تجویز کیا ہے؟

امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے مئی میں تجویز کردہ سیز فائر ڈیل میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فورسز غزہ میں جنگ بندی کریں گی اور بدلے میں حماس کے جنگجو تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیں گے۔

غزہ میں قیام امن کے اس روڈ میپ کے تین مراحل تجویز کیے گئے ہیں، جن میں سے پہلے مرحلے میں چھ ہفتے کے سیز فائر کی تجویز ہے، جس دوران کچھ یرغمالیوں کی رہائی اور اسرائیلی جیلوں سے کچھ فلسطینیوں کو آزاد کرنے کی تجویز ہے۔

’اسرائیل نے انسانیت کے خلاف جرائم کیے، حماس نے جنگی جرائم‘

بلنکن پھر مشرق وسطیٰ میں، جنگ بندی کی کوششیں تیز تر

دوسرے مرحلے میں مستقل جنگ بندی اور تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے کی بات کی گئی ہے۔ ساتھ ہی اسرائیلی افواج کا غزہ سے مکمل انخلاء تجویز کیا گیا ہے۔  تیسرا مرحلہ غزہ پٹی میں تعمیر نو اور بحالی کا ہو گا۔

اس منصوبے میں البتہ ایسا کوئی واضح تذکرہ نہیں کہ حماس کو غزہ کا انتظام چلانے سے روک دیا جائے گا یا اس عسکری گروہ کو تباہ کر دیا جائے گا۔ اس مجوزہ ڈیل کے مطابق اس تنازعے کے خاتمے کے بعد ہی غزہ پٹی کی تعمیر نو اور بحالی کے منصوبے پر عمل شروع ہو گا۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے اس منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی دفاعی افواج نے گزشتہ قریب آٹھ ماہ کی فوجی کارروائیوں کے دوران حماس کے جنگجوؤں کے نیٹ ورک کو اتنا تباہ حال کر دیا ہے کہ وہ اب سات اکتوبر جیسا کوئی حملہ کرنے کی ہمت ہی نہیں رکھتا۔

حماس کا کسی بھی سیز فائر کے لیے اولین مطالبہ جنگ کا مکمل طور پر خاتمہ اور غزہ پٹی سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا ہے۔ اسی صورت میں حماس کے جنگجو یرغمالیوں کو آزاد کرنے پر رضا مند ہیں تاہم اسرائیل اس مطالبے کو یکسر مسترد کرتا ہے۔

یہ تنازعہ کب اور کیسے شروع ہوا؟

سات اکتوبر کو حماس کے عسکریت پسندوں نے غزہ پٹی سے اسرائیلی سرزمین میں داخل ہو کر اچانک حملہ کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں تقریباﹰ 1200 افراد مارے گئے تھے جبکہ یہ جنگجو 250 کے قریب افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ پٹی بھی لے گئے تھے۔

ان میں سے سو کے قریب یرغمالی ایک سیز فائر ڈیل کے تحت آزاد کر دیے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک سو سولہ یرغمالی اس وقت بھی غزہ میں حماس کی قید میں ہیں۔ تاہم اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکتالیس مارے جا چکے ہیں۔

اسرائیلی فوج نے وسطی غزہ میں نئی زمینی کارروائی شروع کر دی

’رفح کے وسط تک پہنچ گئے ہیں،‘ اسرائیلی فوج

اس دہشت گردانہ حملے کے بعد سے اسرائیل نے غزہ پٹی میں حماس کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے خصوصی عسکری آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ یہ عسکری کارروائی اب نویں ماہ میں داخل ہو چکی ہے۔ اس دوران غزہ پٹی میں ہزاروں کی تعداد میں شہری ہلاکتیں بھی رپورٹ کی گئی ہیں۔

غزہ پٹی میں حماس کے طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے دوران اب تک مجموعی ہلاکتوں کی تعداد تقریباً 37 ہزار تین سو ہو چکی ہے، جن میں بہت بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی تھی۔

ع ب/ م م، ع ا (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

غزہ میں جنگ بندی، نیتن یاہو پر بڑھتا دباؤ