1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فضل الرحمٰن کی ہیبت اللہ سے ملاقات: کیا کوئی فرق پڑے گا؟

11 جنوری 2024

کابل اور اسلام آباد میں کشیدہ صورت حال کے درمیان جعمیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، جو افغانستان کے دورے پر ہیں، نے طالبان کے ممتاز رہنما ملا ہیبت اللہ سے ملاقات کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4b8Kc
Maulana Fazlur Rehman, Anführer der JUI Jamiat Ulema-e-Islam
تصویر: Muhammed Semih Ugurlu/Anadolu/picture alliance

ملا ہیبت اللہ کی کسی بھی بیرونی رہنما سے یہ دوسری ملاقات ہے، اس لیے پاکستان میں کئی حلقے اس دورے کو بہت اہمیت دے رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس سے دونوں ممالک میں تعلقات بہتر ہوں گے۔ تاہم بین الاقوامی امور کے چند دیگر ماہرین کے خیال میں تعلقات کی بہتری اتنی آسان نہیں ہے۔

فضل الرحمن اس سے پہلے افغان وزیر اعظم ملا حسن سے بھی ملاقات کر چکے ہیں۔

افغان طالبان اور ٹی ٹی پی

واضح رہے کہ جب سے افغان طالبان دوبارہ سے بر سر اقتدار آئے ہیں کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں میں کئی گناہ اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم انوار الحق کاکٹر اور دوسرے اعلیٰ حکومتی اہلکاروں نے الزام لگایا ہے کہ ان حملوں میں کچھ افغان شہری بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ کابل ٹی ٹی پی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے۔ دونوں عسکریت پسند گروہوں میں نظریاتی رشتہ ہے اور دونوں نے ایک دوسرے کی متعدد مواقع پر مدد کی ہے۔

افغان طالبان اور جے یو آئی ایف

خیال کیا جاتا کہ افغان طالبان رہنما اور کمانڈرز کی ایک بڑی تعداد نے جے یو آئی ایف کے زیر انتظام چلنے والے مدارس میں تعلیم حاصل کی ہے اور ان کے جے یو آئی ایف کے رہنماؤں کے ساتھ اچھے مراسم ہیں۔ شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند کمانڈر حافظ گل بہادر جے یو آئی ایف کی طلبا ونگ کے رہنما رہ چکے ہیں اور ان کے حقانی نیٹ ورک اور دوسرے افغان رہنماؤں سے بہت قریبی مراسم ہیں۔

Afghanistan Kabul | Sticker mit Taliba Führer Hibatullah Achundsada
ہیبت اللہ آخونزادہ کو افغان طالبان اپنا سپریم لیڈر مانتے ہیںتصویر: Mohd Rasfan/AFP/Getty Images

مثبت اُمیدیں

پاکستان کے سوشل میڈیا پر یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ  مولانا کو کابل حکومت نے دعوت نہیں دی ہے اور یہ کہ مولانا کو وہاں کوئی خاص اہمیت نہیں دی جارہی۔ تاہم پاکستان اور افغانستان میں عسکریت پسندی پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار احسان اللہ ٹیپو محسود کا کہنا ہے کہ فضل الرحمن کو ملنے والا استقبال بہت اہمیت کا حامل ہے۔ احسان اللہ ٹیپو محسود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''طالبان کے سپریم رہنما نے اس سے پہلے صرف قطر کے وزیر اعظم سے ملاقات کی ہے اور اس کے بعد فضل الرحمن سے ان کی ملاقات بہت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ملاقات ظاہر کرتی ہے کہ کابل مولانا فضل الرحمن کو کتنی زیادہ سنجیدگی سے لیتا ہے۔‘‘

احسان اللہ ٹیپو محسود کے مطابق اس کے مثبت نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ ''یقیناً نتائج میں تھوڑا وقت لگ سکتا ہے لیکن اسلام آباد اور ٹی ٹی پی کے درمیان افغان طالبان کی مداخلت پر جنگ بندی ہوسکتی ہے اور بعد میں معاملات مزید آگے بھی بڑھ سکتے ہیں۔‘‘

فضل الرحمن کے پاس کوئی اختیار نہیں

 کئی ناقدین کے خیال میں فضل الرحمن کے پاس خارجہ امور کے حوالے سے کوئی اختیارات نہیں ہیں۔ افغانستان کی تاریخ اور اس کے سیاسی امورپر گہری نظر رکھنے والے سابق سینیٹر افراسیاب خٹک اس دورے سے کوئی امیدیں وابستہ نہیں کرتے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''افغان طالبان میں سے کئی  پاکستان  میں پیدا ہوئے، پاکستان میں پلے بڑھے ہیں اور یہاں انہوں نے پڑھا ہے۔ وہ اس ملک کو اتنی اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کسی مذہبی سیاسی جماعت کے رہنما کے اس جھانسے میں نہیں آئیں گے کہ اس کا اس ملک کی افغان پالیسی بنانے میں کوئی کردار ہے۔‘‘

افراسیاب خٹک کے مطابق یہ فضل الرحمن کی پبلک ریلشنز کی مہم ہے، جس کا مقصد ووٹرز کو متاثر کرنا ہے۔

 

Afghanistan Taliban-Vertreter führen in Doha Gespräche mit US-amerikanischen und europäischen Delegierten
دوہزار اکیس میں دوحہ میں افغان طالبان کی قیادت نے امریکی وفد سے ملاقات کی تھیتصویر: Stringer/REUTERS

افغان طالبان کے مفادات

کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ افغان طالبان پاکستان سے ''کچھ دو اور کچھ لو‘‘ کے اصول پر کام کریں گے۔ واضح رہے کہ افغان طالبان ماضی میں سرحدی تجارت، سرحدی باڑھ اور افغان مہاجرین کے حوالے سے پاکستانی پالیسی پر اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ بین الاقوامی امور کی ماہر ڈاکٹر طلعت اے وزارت کے خیال میں پاکستان چاہتا ہے کہ کابل ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''لیکن افغان طالبان آسانی سے پاکستان کے مطالبات نہیں مانیں گے۔ کابل چاہے گا کہ پاکستان  سرحدی تجارت، سرحدی باڑھ اور افغان مہاجرین کے حوالے سے اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے۔‘‘

انتخابات اور دورہ

طلعت اے وزارت اس دورے کو ملکی انتخابات کے تناظر میں بھی دیکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کے پی میں دہشت گردانہ حملے جاری ہیں۔ ''اس میں زیادہ تر حملے جے یو آئی ایف پر نہیں ہوئے لیکن اگر ٹی ٹی پی کے حملے کے پی میں جاری رہتے ہیں، جہاں فضل الرحمن سیاسی طور پر بہت طاقت ور ہیں، تو وہاں ان کو انتخابی مہم چلانے میں بہت پریشانی ہوگی۔‘‘

طلعت اے وزارت کے مطابق حملے اگر جے یو آئی ایف پر نہیں بھی ہوتے تو پھر بھی ان سے خوف کا ماحول پیدا ہوگا۔ ''اور ایسے ماحول میں مولانا فضل الرحمن، جن کے بیٹے کے حوالے سے پہلے ہی تھریٹ الرٹ جاری ہوا  ہے، کیسے انتخابی مہم چلا سکیں گے۔‘‘

Pakistan Islamabad | Treffen Premier Khan mit Taliban-Führern
سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی 2020 ء میں اسلام آباد میں افغان طالبان کے رہنماؤں سے ملاقاتتصویر: Pakistan Prime minister office/AFP

ڈاکٹر طلعت اے وزارت کے اس بیان کو تقویت کچھ اخبارات میں رپورٹ ہونے والی ان خبروں سے ملتی ہے، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مولانا فضل الرحمن  پر امن انتخابات کے حوالے سے کابل سے یقین دہانیاں چاہتے ہیں۔ انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیبون کی ایک رپورٹ کے مطابق فضل الرحمن اور ملا ہیبت اللہ کی ملاقات کے دوران جے یو آئی ایف کے رہنما کو یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ آئندہ انتخابات پاکستان میں پرامن ماحول میں ہوں گے اور یہ کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے دوبارہ بات چیت کے لیے کوششیں کی جائیں گی۔ اخبارکا دعویٰ ہے کہ فضل الرحٰمن نے افغان رہنما کو یقین دلایا کہ وہ کابل کے مطالبات پاکستانی حکومت کے سامنے رکھیں گے۔ ان مطالبات میں سوفٹ ویزا پالیسی، بارڈر مینیجمنٹ اور مہاجرین کے مسائل شامل ہیں۔ تاہم فضل الرحمٰن نے افغان رہنما سے جنگ بندی اور پر امن انتخابات کیپ یقین دہانی بھی مانگی۔