1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مولانا فضل الرحمان کی نظر اب کرسی صدارت پر

عبدالستار، اسلام آباد
5 دسمبر 2023

جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی نظر اب کرسی صدارت پہ جم گئی ہیں، جے یو آئی ایف کی اس خواہش پر ملک کے طول و عرض میں بحث ہو رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4ZoPe
مولانا فضل الرحمان
تصویر: AP

جمعت علماء اسلام کے مرکزی رہنما اور سابق سینیٹر حافظ حمداللہ کا کہنا ہے کہ جب مولانا فضل الرحمان پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے صدر منتخب ہو سکتے ہیں تو وہ ملک کے صدر کیوں منتخب نہیں ہو سکتے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور جی ایچ کیو کے لیے مولانا کو قبول کرنا آسان نہیں ہوگا۔

کچھ مبصرین کی یہ بھی رائے ہے کہ سیاسی جماعتیں صرف وزارت، مشاورت اور سرکاری عہدوں کے لیے سیاسی اتحاد بناتی ہیں۔

بلوچستان، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی انتخابی مہم اور منتشر اہداف

کیا پاکستان میں آزادانہ اور منصفانہ الیکشن ممکن ہوسکیں گے؟

جے یو آئی، وزارت سے صدرات تک؟

جمیعت علماء اسلام کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی سیاسی حیثیت سے بڑھ کر اقتدار میں حصہ مانگتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اقتدار کے مزے لوٹے جبکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں بھی وہ شریک اقتدار رہی۔ اب جے یو آئی کی نظر ملکی صدر کے عہدے پر ہے، جس کا ملنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ جمعیت علماء اسلام کے رہنما اور سابق سینیٹر حافظ حمد اللہ کا کہنا ہے کہ مولانا اس عہدے کے لیے موضوع ترین شخصیت ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرا یہ دعویٰ ہے کہ چاہے انتخابات پیپلز پارٹی جیتے یا لیگ، کرسی صدارت مولانا فضل الرحمان کو ہی ملے گی۔ ہم نے ابھی ان دونوں جماعتوں سے کوئی باقاعدہ بات چیت نہیں کی ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ مولانا اگر پی ڈی ایم کو چلا سکتے ہیں تو کرسی صدارت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘

’قبولیت مشکل ہے‘

جے یو آئی افغان طالبان کی حمایت کرتی ہے جبکہ نظریاتی طور پہ بھی وہ انتہائی قدامت پرست پارٹی ہے، جس کی مقبولیت قومی سطح پر بہت مشکل ہے۔ تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت معتدل مزاج ہے جبکہ جمعیت علماء اسلام ایک قدامت پرست مذہبی جماعت تصور کی جاتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عوامی سطح پر وہ زیادہ ووٹ نہیں لے پائے گی کیونکہ کے پی میں عمران خان بہت مقبول ہیں جب کہ  ن لیگ اور پی پی پی بھی یہ عہدہ دینے پہ تیار نہیں ہوں گی۔‘‘

جی ایچ کیو کی طرف سے قبولیت، ایک چیلنج

خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں وزارت عظمٰی سے لے کر کرسی صدارت تک تمام معاملات میں ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل ہوتا ہے اور انہیں ناراض کیے بغیر کوئی ان معاملات میں یکطرفہ فیصلہ نہیں کر سکتا۔

مولانا فضل الرحمان نے ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے انتہائی سخت رویہ اپنایا اور ایک مرحلے پر کور کمانڈر آفس کے سامنے مظاہروں کی بھی دھمکی دی۔ اس اسٹیبلشمنٹ مخالف رویے کی وجہ سے کرسی صدارت کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا مشکل ہو سکتا ہے۔ تاہم حافظ حمد اللہ کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کا بھی ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے انتہائی سخت رویہ تھا، لیکن وہ اقتدار میں ائے تو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔

بحرانوں کا شکار پاکستان: ذمہ دار کون، فوج یا سیاست دان؟

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی صحافی فوزیہ کلثوم رانا کا کہنا ہے کہ یہ بات صحیح ہے کہ مولانا کے تعلقات بعض مواقع پہ اسٹیبلشمنٹ سے اچھے نہیں رہے لیکن ایسا ہمیشہ سے نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب طاقتور حلقے عمران خان کے خلاف ہوئے، تو یہ مولانا فضل الرحمان ہی تھے جنہوں نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو ملا کر عمران خان کے خلاف محاذ کھڑا کیا۔ مولانا فضل الرحمان ایک زیرک سیاستدان ہیں تو وہ مخالفت کو حمایت میں بدلنا جانتے ہیں۔‘‘

عوامی مسائل اور سیاسی اتحاد

پاکستان میں عوامی مسائل گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں، معاشی شرح نمو جمود کا شکار ہے۔ گزشتہ برس کے سیلاب  کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہوا ہے، بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ فوزیہ کلثوم رانا کا کہنا ہے کہ کیونکہ پاکستان میں عوام کی اکثریت پڑھی لکھی نہیں ہے اس لیے وہ مسائل کی بنیاد پر سیاست دانوں کو منتخب نہیں کرتے: ''سیاست دان بھی یہ چاہتے ہیں کہ ان کے اور ان کے خاندان والوں کی دولت میں اضافہ ہو۔ اس لیے وہ سیاسی اتحاد کی بنیاد بھی عہدوں اور وزارتوں پہ رکھتے ہیں تاکہ اپنے اور اپنے رشتہ داروں کو فائدہ پہنچا سکیں اور عوامی مسائل کو نظر انداز کر سکیں۔‘‘

تاہم جمعیت علماء اسلام کی مرکزی شوریٰ کے رکن محمد جلال الدین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اختیار کے بغیر عوامی خدمت کرنا آسان نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسی بات نہیں ہے کہ جے یو آئی ایف صرف اقتدار چاہتی ہے بلکہ اس کی معیشت، زراعت، بے روزگاری اور دوسرے عوامی مسائل کے حوالے سے بھرپور تیاری ہے اور اگر اسے اقتدار ملا تو وہ ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے گی۔‘‘

محمد جلال الدین ایڈووکیٹ کے مطابق سیاسی جماعت سیاست میں حصہ ہی اسی لیے لیتی ہیں کہ اقتدار میں آئے اور عوام کی خدمت کرسکے۔

’صدارت کی باتیں قبل از وقت ہیں‘

مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ صدارت کے حوالے سے ابھی کوئی بھی بات کہنا قبل از وقت ہے۔ ن لیگ کے سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نثار احمد چیمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سیاست میں کوئی بھی شخص کسی طرح کی بھی خواہش کر سکتا ہے لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اگلے انتخابات میں حکمران پارٹی کون بنتی ہے۔ میرے خیال میں وہ پارٹی لیگ ہوگی اور وہ پھر سیاسی اتحادیوں کی مشاورت سے اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرے گی۔‘‘

پی پی پی کا بھی یہی کہنا ہے کہ صدارت کی باتیں قبل از وقت ہیں۔ پارٹی کی ایک رہنما اور سابق سینیٹر سحر کامران کا کہنا ہے کہ صدارت کی خواہش کوئی بھی کر سکتا ہے: ''لیکن ہم یہ دیکھیں گے کہ عوام نے کس کو ووٹ دیے ہیں۔ انتخابات کے بعد ہم اپنے نظریے کی بنیاد پر مرکزی کمیٹی کی رہنمائی میں اس حوالے سے فیصلے کریں گے۔‘‘