1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستاسرائیل

’غزہ فلسطینی سرزمین ہے اور فلسطینی سرزمین ہی رہے گی،‘ امریکہ

3 جنوری 2024

اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر نے غزہ کے باشندوں کی فلسطینی سرزمین سے منتقلی کے بارے میں دو اسرائیلی وزراء کے بیانات پر امریکہ کی کڑی تنقید کا سخت جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ وہی کریں گے، جو اسرائیل کی بہتری میں ہے۔

https://p.dw.com/p/4apYI
Israel Itamar Ben-Gvir
تصویر: EyalWarshavsky/ZUMA Wire/IMAGO

اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر اور انتہائی دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے سیاست دان کا امریکہ کو دو ٹوک جواب دیتے ہوئے یہ بیان منگل دیر گئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شائع کیا گیا۔ ان کا یہ پیغام دراصل اس وقت سامنے آیا، جب امریکی محکمہ خارجہ نے ان کے مطالبے پر یہ کہہ کر کڑی تنقید کی تھی کہ ''فلسطینی آبادی کی منتقلی اشتعال انگیزی اور غیر ذمہ دارانہ عمل ہے۔‘‘

امریکی محکمہ خارجہ نے کہا، ''غزہ فلسطینی سرزمین ہے اور فلسطینی سرزمین ہی رہے گی۔ تصادم کے دوران شہریوں کو بے دخل کرنا یا ناقابل رہائش حالات پیدا کرنا، جو انہیں وہاں سے نکلنے پر مجبور کر دیں، جنگی جرم ہے۔‘‘

ایکس پر پوسٹ کیے گئے اس پیغام میں اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گوئیر نے منگل کو رات گئے مزید لکھا، ''امریکہ ہمارا سب سے اچھا دوست ہے لیکن سب سے پہلے ہم وہی کریں گے، جو اسرائیل کی ریاست کے لیے بہتر ہے۔ غزہ سے لاکھوں فلسطینیوں کی نقل مکانی سے اسرائیلی رہائشیوں کو گھر واپس آنے اور سلامتی کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع ملے گا اور  اسرائیلی  ڈیفنس فورسز کو تحفظ فراہم ہو گا۔‘‘

Israel Netanjahu und Ben Gvir
اسرائیلی وزیر اعظم اور وزیر قومی سلامتیتصویر: Mostafa Alkharouf/AA/picture alliance

یہ موضوع اتنا اہم کیوں؟

واشنگٹن نے بین گوئیر اور اسرائیل کے وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ دونوں کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کیونکہ ان دونوں نے اسرائیلی آباد کاروں کو غزہ واپس جانے اور علاقے کے فلسطینی باشندوں کو اپنا آبائی علاقہ چھوڑنے کے لیے کہا ہے۔ اسرائیلی وزراء کے تبصرے اس خوف کی نشاندہی کرتے نظر آرہے ہیں، جن کا شکار  عرب دنیا کے زیادہ تر باشندے ہیں۔ اسرائیلی وزراء کے ایسے بیانات ان خدشات کو جنم دیتے ہیں کہ اسرائیل 1948 ء میں اپنے ریاستی قیام کے وقت کی طرح ایک بار پھر فلسطینیوں کو بڑے پیمانے پر بے دخل کرنا چاہتا ہے۔

ویسٹ بینک میں پرتشدد نقل مکانی کے خوف میں جیتے فلسطینی

 واضح رہے کہ گزشتہ اتوار کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دائیں بازو کے سیاسی اتحاد نے غزہ کے فلسطینی باشندوں پر زور دیا تھا کہ وہ اس محصور علاقے کو چھوڑ دیں۔ قومی سلامتی کے وزیر بین گوئیر نے اس موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ غزہ میں جنگ نے ''اس علاقے کے رہائشیوں کی نقل مکانی کی حوصلہ افزائی پر توجہ مرکوز کرنے کا ایک موقع فراہم کر دیا ہے۔‘‘

Gazastreifen Luftangriffe auf Khan Younis
غزہ پٹی ملبے کا ڈھیر بن چُکی ہےتصویر: Mohammed Dahman/AP Photo/picture alliance

اسرائیلی وزیر کے بیانات کا سیاق وسباق

اسرائیلی  وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ کی سخت گیر موقف والی دائیں بازو کی مذہبی پارٹی کو اسرائیل کی آبادکار برادری کی حمایت حاصل ہے۔ اسی برادری نے گزشتہ برس نیتن یاہو کو چھٹی بار وزیر اعظم بننے کے لیے  درکار اکثریتی ووٹ دلوائے تھے۔ قبل ازیں بین گوئیر  کی طرف سے دیے گئے ریمارکس بھی امریکی صدر جوبائیڈن کی ناراضی کا سبب بن چکے ہیں۔ اس کے سبب جو بائیڈن نے دسمبر میں ایک بیان میں کہا تھا، ''اسرائیلی وزیر اور ان کے اتحادی تمام فلسطینیوں سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔‘‘

مقبوضہ فلسطينی علاقوں ميں اسرائيلی آباد کاری: مخالفت میں امريکا اور يورپ بھی بول پڑے

غزہ کے فلسطینیوں کی صورت حال

حماس کے عسکریت پسندوں اور اسرائیل  کے درمیان تقریباً تین ماہ کی لڑائی کے باعث غزہ کے 2.4 ملین باشندوں کی اکثریت اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکی ہے۔ حماس کے زیر انتظام غزہ میں وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں اب تک کم از کم 22,185 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے، جب کہ مسلسل حملوں نے غزہ پٹی کے زیادہ تر علاقوں کو ملبے اور کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔

Gaza  Rafah Luftangriff Hamas Israel
رفح کا علاقہ بھی مسمار ہو چکا ہےتصویر: Abed Rahim Khatib/dpa

اسرائیل اور حماس کی یہ لڑائی گزشتہ برس سات اکتوبر کو اس وقت شروع ہوئی تھی، جب حماس نے اسرائیل پر دہشت گردانہ حملہ کرتے ہوئے تقریبا 1140 اسرائیلیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ حماس کے جنگجو  اسرائیل سے واپس جاتے ہوئے 240 کے قریب افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ بھی لے گئے تھے۔ ان یرغمالیوں کی اکثریت ابھی تک حماس کے قبضے میں ہے۔

ک م/ ا ا، م م (اے ایف پی، اے پی)