عسکریت پسندوں نے فوجی کرنل، تین دیگر مغویوں کو رہا کر دیا
1 ستمبر 2024پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی طرف سے ہفتہ اکتیس اگست کو رات گئے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ لیفٹیننٹ کرنل خالد امیر خان اور ان کے خاندان کے تین دیگر افراد کو، جنہیں بدھ کے روز ایک مقامی مسجد سے اغواکر لیا گیا تھا، اغوا کاروں نے رہا کر دیا ہے۔
مقامی پولیس کے مطابق مغویوں میں پاکستانی فوج کے یہ اعلیٰ افسر، ان کے دو بھائی، جو دونوں سرکاری افسر ہیں، اور ان کا ایک بھتیجا شامل تھے۔
وہ سب لیفٹیننٹ کرنل خالد امیر خان کے مرحوم والد کی تدفین کے بعد ایک مسجد میں تعزیت کے لیے آنے والوں سے ملاقات کے لیے بیٹھے تھے کہ مسلح عسکریت پسند ان چاروں کو اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
جنوبی وزیرستان: اب تک امن کیوں نہیں ہوا، احتجاج کیوں جاری؟
پاکستان آرمی کے جاری کردہ بیان کے مطابق اس فوجی افسر اور ان کے تینوں رشتے داروں کی محفوظ رہائی قبائلی عمائدین کی کوششوں کے نتیجے میں ممکن ہو سکی اور یہ رہائی ''غیر مشروط طور پر‘‘ عمل میں آئی۔
فوجی بیان میں مزید کوئی تفصیلات بتائے بغیر یہ بھی کہا گیا، ''تمام مغوی بحفاظت اور بخیریت واپس گھر پہنچ گئے ہیں۔‘‘
مغویوں کو اغوا کس نے کیا؟
ڈیرہ اسماعیل خان شمال مغربی پاکستان میں صوبے خیر پختونخوا کا ایک ضلع ہے، جہاں ماضی میں پاکستانی طالبان کی ممنوعہ تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند کافی سرگرم رہے ہیں۔
لیفٹیننٹ کرنل خالد امیر خان اور ان کے بھائیوں اور بھتیجے کے اغوا کی ذمے داری اپنے طور پر تو کسی بھی عسکریت پسند گروپ نے قبول نہیں کی تھی، تاہم گزشتہ بدھ کے روز ان کے اغوا کے چند گھنٹے بعد ایسے ویڈیو بیانات منظر عام پر آئے تھے، جن میں چار میں سے دو مغویوں نے کہا تھا کہ وہ پاکستانی طالبان کے قبضے میں تھے۔
'اب افغانستان میں ٹی ٹی پی دہشتگردوں کا سب سے بڑا گروپ ہے' اقوام متحدہ
ان ویڈیو بیانات میں ان دونوں مغویوں نے حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ وہ اغوا کاروں کے مطالبات تسلیم کرے اور ان کی رہائی کے لیے کوششیں کرے۔ یہ بات تاہم ان بیانات میں غیر واضح ہی رہی تھی کہ ٹی ٹی پی کے مبینہ اغوا کاروں کے مطالبات کیا تھے۔
پاکستانی طالبان کے ہاتھوں اغوا کے کم تر واقعات
پاکستانی طالبان گزشتہ کئی برسوں سے ملکی سکیورٹی فورسز اور اہم حکومتی اہداف کو نشانہ تو بناتے رہتے ہیں تاہم ان کی طرف سے کسی کو اغوا کرنے اور پھر مغویوں کو رہا بھی کر دینے کے واقعات شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔
پاکستانی طالبان اپنی سوچ میں اگرچہ افغانستان میں طالبان کے ہم خیال اور اتحادی ہی ہیں مگر تنظیمی طور پر وہ افغان طالبان سے مختلف گروہ ہیں۔ دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ اگست 2021ء میں کابل میں افغان طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستانی طالبان کے اندرون ملک حملے بھی دوبارہ کافی زیادہ ہو چکے ہیں۔
پاکستان کی طرف سے ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے افغان سرزمین پر اپنے محفوظ ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں، جہاں سے وہ پاکستان میں خونریز حملوں کی تیاری اور ایسے منصوبوں پر عمل بھی کرتے ہیں۔
کابل میں افغان طالبان کی حکومت کی طرف سے البتہ پاکستان کے ان الزامات کی تردید کی جاتی ہے۔
م م / ع س (اے پی، ڈی پی اے)