1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت

گابریئل ڈومینگیز / مقبول ملک13 اگست 2013

نیٹو کی قیادت میں آئی سیف کے بین الاقوامی دستے افغانستان سے اپنے انخلاء کی تیاریوں میں ہیں لیکن طالبان باغیوں کے حملے اور بھی زیادہ اور ہلاکت خیز ہوتے جا رہے ہیں۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ طالبان واپس اقتدار میں آ سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/19OU8
تصویر: T.White/AFP/Getty Images

’’ہم بغلان کے صوبے میں گشت پر تھے کہ اچانک ایک قریبی بستی کے پاس سے گزرنے والی سڑک سے ہم پر فائرنگ کی گئی۔ ہم نے جوابی فائر کیا اور یہ تصادم اتنی ہی جلد ختم ہو گیا جتنی جلدی وہ شروع ہوا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد حملہ آور گاؤں کے لوگوں میں اس طرح گھل مل گئے کہ ہمارے لیے عسکریت پسندوں اور عام شہریوں میں امتیاز کرنا ناممکن ہو چکا تھا۔‘‘

Afghanistan Taliban Kämpfer Waffe
افغان صوبے ننگرہار میں اس سال جون میں لی گئی طالبان کے ایک گروپ کی تصویرتصویر: imago stock&people

یہ تفصیلات وفاقی جرمن فوج کے افغانستان میں فرائض انجام دے چکنے والے ایک لیفٹیننٹ کرنل کی ایک رپورٹ کا حصہ ہیں، جو اس امر کی وضاحت کے لیے کافی ہیں کہ طالبان ترجیحی بنیادوں پر کس طرح کی عسکری حکمت عملی پر انحصار کرتے ہیں۔

کئی ماہرین کی رائے میں جو ایک بات طالبان کو عسکری مخالفین کے طور پر بہت خطرناک بناتی ہے، وہ ان کی گوریلا سٹریٹیجی اور اپنی مزاحمت کے انداز کو بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کے مطابق ڈھال لینے کی صلاحیت ہے۔ جرمنی کے سلامتی کی سیاست اور دہشت گردی سے متعلق تحقیق کے ادارے سے منسلک ماہر رَولف ٹاپ ہوفن کہتے ہیں کہ طالبان کی حکمت عملی زیادہ سے زیادہ نپی تلی اور سفاکانہ ہو چکی ہے۔

افغانستان میں اتحادی فوجیں اپنے انخلاء کی تیاریوں کے دوران جو علاقے خالی کرتی ہیں، طالبان انہیں اپنے کنٹرول میں لینے کے لیے زیادہ سے زیادہ سول اہداف پر حملے کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال کی پہلی ششماہی کے دوران افغانستان میں شہری ہلاکتوں کی تعداد پچھلے سال کے پہلے چھ ماہ کے مقابلے میں 23 فیصد زیادہ رہی۔

طالبان عسکریت پسند اپنے حملوں کے لیے زیادہ تر دیسی ساخت کے بم استعمال کرتے ہیں۔ یہی بم بین الاقوامی حفاظتی فوج اور افغان سکیورٹی دستوں کے خلاف پہلے کی طرح آج بھی ان کا سب سے اہم ہتھیار ہیں۔ افغانستان میں طالبان کسی متحدہ اور منظم ملیشیا کا حصہ نہیں ہیں۔

واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے افغانستان سے متعلقہ امور کے ماہر ماروِن وائن باؤم کہتے ہیں کہ افغان اور پاکستانی طالبان بنیادی طور پر مقامی سطح پر فعال عسکریت پسندوں کے دو مختلف نیٹ ورک ہیں۔ وائن باؤم کے بقول افغان طالبان یوں تو پورے افغانستان میں کارروائیاں کرتے ہیں لیکن وہ جنوبی اور مشرقی افغان صوبوں میں بہت سرگرم ہیں اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہیں پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں بس شاذ و نادر ہی میسر آتی ہیں۔

Afghanistan Sicherheit Verantwortung Übernahme NATO Soldaten 18.06.2013
افغانستان سے اتحادی فوجی دستوں کا انخلاء اگلے سال مکمل ہو جائے گاتصویر: Shah Marai/AFP/Getty Images

ماروِن وائن باؤم کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کابل حکومت کا زوال چاہتے ہیں اور پاکستانی طالبان ملک میں اسلامی ریاست کے قیام اور شرعی قوانین کے نفاذ کے حامی ہیں۔ مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے اس ماہر کے مطابق پاکستانی طالبان افغان طالبان کی حمایت کرتے ہیں اور افغان طالبان پاکستان پر حملے نہیں کرتے۔

امریکی دارالحکومت میں قائم وُڈرَو وِلسن سینٹر کے جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مِشیل کُوگل مین کہتے ہیں کہ طالبان اپنی جنگی حکمت عملی کو ہمیشہ ہی بدلتے ہوئے حالات و واقعات سے ہم آہنگ بنا لیتے ہیں، وہ اپنے مخالفین کی حکمت عملی کا جائزہ لیتے ہوئے ان کا مطالعہ کرتے ہیں، طالبان کے پاس مقامی مخبر بھی ہوتے ہیں اور ان جنگجوؤں کو مسلسل عسکری کارروائیوں کا بھی بڑا تجربہ ہے۔

ماروِن وائن باؤم کے مطابق طالبان افغانستان میں غیر ملکی فوجی دستوں کے انخلاء کے بعد بڑی جنگی کارروائیوں کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ اپنے خونریز حملوں کے باوجود اپنے لیے عوامی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے عسکری مقاصد حاصل کرنے کی جدوجہد کے لیے ان کے پاس وقت کی تو کوئی کمی نہیں ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید