1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان ایران دفاعی معاہدہ، امریکا اور پاکستان کی تشویش

وصلت حسرت نظیمی / شامل شمس8 اگست 2013

اب جب کہ بین الاقوامی افواج افغانستان سے انخلاء کے قریب ہیں، افغان حکومت کی یہ کوشش ہے کہ کس طرح نیٹو افواج کے ملک چھوڑنے کے بعد افغانستان میں قابل عمل سکیورٹی نیٹ ورک قائم کیا جا سکے۔

https://p.dw.com/p/19MXY
تصویر: Mehr/Mohammad Hossein Velayati

دو ہزار چودہ میں افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے بعد ملک کی سلامتی کی صورت حال کے بارے میں افغان حکومت کے پاکستان اور خاص طور پر امریکا کے ساتھ مذاکرات بہت کامیاب دکھائی نہیں دے رہے۔ اس پس منظر میں افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر رنگین دادفر اسپانتا اور ان کے ایرانی ہم منصب سعید جلیلی کے درمیان کا چار اگست کو ایرانی دارالحکومت تہران میں عسکری معاہدے پر دستخط کرنا ایک غیر معمولی اور غیر متوقع عمل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس معاہدے میں افغانستان اور ایران خفیہ معلومات کے تبادلے، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دفاعی تعاون پر متفق ہوئے ہیں۔

امریکا پر دباؤ

افغان حکومت کے ناقد ہشتِ صبح اخبار سے وابستہ سیاسی تجزیہ کار شاہ حسین مرتضوی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اس بات سے خوش نہیں ہوگا کہ اس کے ’’مرکزی دشمن‘‘ ایران اور اتحادی افغانستان کے درمیان اس نوعیت کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’یہ افغانستان کی جانب سے امریکا کو ایک سیاسی پیغام ہے۔ اس معاہدے کے ذریعے افغان صدر حامد کرزئی یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر امریکی حکومت تعاون نہیں کرے گی تو افغانستان امریکا کے اوّلین دشمن کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات قائم کر سکتا ہے۔‘‘

EPA/MIKE THEILER +++(c) dpa - Bildfunk+++
امریکی صدر باراک اوباما اس طرح کے معاہدے کو جلد از جلد قابل عمل بنانا چاہتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

افغان اینیلسٹ نیٹ ورک (اے اے این) کے شریک ڈائریکٹر ٹوماس روٹِگ بھی کہتے ہیں کہ یہ ’’امریکا کو ایک واضح پیغام ہے کہ افغانستان کے پاس دوسرے آپشنز بھی ہیں۔‘‘

روٹِگ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ’’افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلاء کی صورت حال کے تناظر میں افغان حکومت اپنے تعلقات کو وسیع کر رہی ہے اور امریکا پر دباؤ ڈال رہی ہے۔‘‘

ایسا نہیں کہ امریکا افغانستان کے ساتھ اس نوع کے معاہدے نہیں کرنا چاہ رہا۔ امریکی صدر باراک اوباما اس طرح کے معاہدے کو جلد از جلد قابل عمل بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ ایسے کسی معاہدے پر اکتوبر میں دستخط بھی ہو جائیں۔ مگر روٹِگ کے مطابق افغانستان ایسا کرنے سے ہچکچا رہا ہے۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ افغان حکومت امریکا سے زیادہ بہتر لین دین کی پوزیشن پر آنا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان امریکا سے جدید ترین اسلحہ طلب کر رہا ہے جو کہ سن دو ہزار چودہ کے بعد اس کی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔

’’لیکن یہ افغان حکومت کی کم نظری ہے۔‘‘ یہ بات افغانستان سے تعلق رکھنے والے دفاعی ماہر جنرل عتیق اللہ امرخیل نے ڈی ڈبلیو کو بتائی۔ ’’امریکا اتنا بھولا نہیں ہے کہ وہ افغانستان کو ایسا کرنے دے۔ وہ جانتا ہے کہ کس طرح افغان حکومت کو ایسا کرنے سے روکے۔‘‘

پاکستان نہیں

جہاں افغانستان ایران، متحدہ عرب امارات اور بھارت جیسے ملکوں کے ساتھ دفاعی روابط بڑھا رہا ہے وہاں وہ پاکستان کے ساتھ ایسے معاہدے نہیں چاہتا۔

روٹِگ کا اس بارے میں یہ کہنا ہے: ’’پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اس طرح کا معاہدے کرنے کی بہت کوشش کی ہے لیکن افغان حکومت نے اس کو ہمیشہ مسترد کیا ہے۔‘‘ تجزیہ کار کے مطابق یہ بات پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی مزید خرابی کا سبب بن رہی ہے۔

کابل یونيورسٹی سے پروفیسر حمید اللہ فاروقی کا کہنا ہے کہ افغانستان کے امریکا سے بہت زیادہ دور ہونے کے برے نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’علاقے میں موجود ممالک کو نہ اتنی دلچسپی ہے اور ان میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ افغان افواج کی استعداد میں اضافہ کر سکیں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید