1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان ميں پھوٹ کی خبريں، حقيقت يا پراپيگنڈا؟

18 ستمبر 2021

طالبان کی صفوں ميں تقسيم کی خبريں زور پکڑتی جا رہی ہيں۔ تاہم سياسی مبصرين کا ماننا ہے کہ يہ گروپ ماضی ميں بھی اختلافات دور کر کے اپنے مقصد کے حصول کے ليے متحد ہو کر کام کرتا آيا ہے۔

https://p.dw.com/p/40Ubc
Afghanistan Kabul | Taliban-Kämpfer
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images

افغان طالبان ميں تقسيم کی خبريں نئی نہيں ہيں تاہم چند روز قبل نئی کابينہ کے اعلان کے بعد سے اس گروہ کی صفوں ميں مختلف آراء اور اختلافات سے متعلق باتيں زور پکڑتی جا رہی ہيں۔ ذرائع کے مطابق اس وقت افغان طالبان ميں نظرياتی طور پر دو گروپ پائے جاتے ہيں۔ ايک طرف وہ لوگ ہيں، جو سخت گير پاليسيوں اور سن 1990 کی دہائی کے دور کے طرز حکومت کے حامی ہيں۔ دوسری جانب وہ لوگ ہيں، جو يہ سمجھتے ہيں کہ اب وہ دور نہيں رہا اور زمينی حقائق کو مد نظر رکھ کر فيصلہ سازی ضروری ہے۔

افغان خواتین کس طرح طالبان حکومت کے خلاف مزاحمت کر رہی ہیں

عسکریت پسندوں کو حملوں کی اجازت نہیں دیں گے، طالبان حکومت

میں زندہ ہوں، ملا عبدالغنی برادر کا آڈیو پیغام

اختلافات اور تصادم کی خبريں اب تک داخلی سطح پر ہی ہو رہی ہيں اور بظاہر طالبان تقسيم کو خبروں کو رد کر رہے ہيں۔ البتہ کابل کے صدارتی محل ميں ہونے والی ايک حاليہ ملاقات ميں معاملات اس قدر بگڑ گئے کہ ملا عبدالغنی برادر کی ہلاکت کی افواہ پھيل گئی۔ يہاں تک کہ برادر کو آڈيو ريکارڈنگ اور تحريری بيان کے ذريعے ايسی افواہوں کی ترديد کرنا پڑی اور پھر بھی بات نہ بنی، تو وہ ٹيلی وژن پر نمودار ہوئے۔

ملا عبدالغنی برادر امريکا کے ساتھ مذاکراتی عمل ميں طالبان کے مرکزی مذاکرات کار تھے۔ وہ ايک ايسی حکومت کے حامی ہیں، جس ميں ملک کی تمام قوموں کو شامل کيا جائے ليکن حقيقت ميں ايسا نہ ہوا۔ بظاہر سخت گير نظريات کے حامی اب تک حاوی ہيں اور فيصلہ سازی ميں مرکزی کردار ادا کر رہے ہيں۔ تصادم کا ايک اور ثبوت صدارتی محل پر طالبان کا پرچم ہے، جسے افغاستان کا پرچم ہٹا کر وہاں لگايا گيا۔

طالبان حکومت: تنوع کی کمی مایوس کن تھی

اس معاملے سے واقف دو افغان شہريوں نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر نيوز ايجنسی ايسوسی ايٹڈ پريس کو بتايا کہ کابينہ ميں شامل ايک وزير نے اپنا عہدہ چھوڑنے کی دھمکی بھی دی کيونکہ وہ اس بات پر نالاں تھا کہ ملک کی تمام اقليتوں کو نظر انداز کر کے کابينہ ميں صرف طالبان کو شامل کيا گيا ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبيح اللہ مجاہد نے ايسی خبروں کو مسترد کيا ہے۔ منگل کو طالبان کے وزير خارجہ عامر خان نے بھی ان افواہوں کو 'پراپیگنڈا‘ قرار ديتے ہوئے رد کر ديا۔

سياسی مبصرين کے مطابق طالبان کی صفوں ميں اختلافات و تقسيم فوری طور پر گروپ کے ليے مسئلہ نہيں۔ واشنگٹن کے 'دا ولسن سينٹر‘ سے وابستہ مائيکل کوگلمين کے بقول، ''ہم نے ماضی ميں ديکھا ہے کہ اختلافات کے باوجود طالبان ايک متحد قوت ہيں اور اختلافات کا بڑے فيلصوں پر کوئی اثر نہيں پڑتا۔‘‘ کوگلمين کے بقول موجودہ داخلی بحران، اگر وہ ہے بھی، تو اسے سنبھالا جا سکتا ہے۔ انہوں نے البتہ مزيد کہا کہ طالبان پر حکومت صحيح طرح چلانے، بين الاقوامی سطح پر تسليم کيے جانے، پاليسی سازی اور کئی اہم چيلنجز کی وجہ سے دباؤ ہے اور اگر وہ ان معاملات ميں ناکام رہے، تو اندرونی اختلافات شدت اختيار کر سکتے ہيں۔

ع س / ا ا (اے پی)