1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدر علوی کا ’خدا گواہ‘ لیکن حقیقت ہے کیا؟

20 اگست 2023

''سب کو معلوم ہے کہ اس ملک میں کونسا ایسا طاقتور ادارہ ہے یا جو اس طرح کے دستخط کر سکتا ہے۔ ان دستخطوں کے پیچھے بھی ممکنہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کا ہی ہاتھ ہے۔‘‘ کچھ مبصرین کا ماننا ہے کہ صدر علوی کے دعویٰ میں وزن ہے۔

https://p.dw.com/p/4VNRm
Pakistan Präsident Arif Alvi
تصویر: Ahmad Kamal/Xinhua/IMAGO

صدر مملکت عارف علوی نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک ہلچل مچا دینے والا انکشاف کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے پاکستان آرمی ترمیمی بل دو ہزار تئیس اور آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل دو ہزار تئیس پر دستخط نہیں کیے کیونکہ وہ ان بلوں سے اتفاق نہیں کرتے۔ عارف علوی کے اس دعوے اور ایمان مزاری کی گرفتاری کو لوگ ملک میں نادیدہ قوتوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کا عکاس قرار دے رہے ہیں۔

عارف علوی نے اپنی ایک ٹوئٹ میں یہ انکشافات کیے۔ ٹوئٹ میں مزید دعوی کیا گیا کہ انہوں نے اپنے اسٹاف سے پوچھا تھا کہ بل دستخط کے بغیر پارلیمنٹ واپس بھیجے گئے ہیں یا نہیں اور یہ کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ وہ بھیج دیے گئے ہیں۔ 

دوسری طرف سابق رکن قومی اسمبلی علی وزیر اور انسانی حقوق کی کارکن ایمان زینب مزاری کو بھی گرفتار کیا گیا ہے، جو پاکستان کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ سوشل میڈیا پر ایمان مزاری کی گرفتاری اور عدالت آمد کی ویڈیوز بڑے پیمانے پر شیئر کی جا رہی ہیں۔

عجلت میں منظور ہوا قانون: سیاسی مفادات یا عدالتی اصلاح

پاکستان: سیاسی جماعتیں کمزور اور اسٹیبلشمنٹ مزید طاقتور

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے بھی ایمان زینب مزاری کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ یہ گرفاریاں ملک کی مقتدر قوتوں کے اشارے پر ہوئی ہے، جنہیں ان دونوں (ایمان زینب مزاری اور علی وزیر) نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا جبکہ صدر عارف علوی کہ جعلی دستخط کے حوالے سے بھی پاکستان کے طاقتور ستونوں کو ہی شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کی بڑھتی ہوئی طاقت

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ شروع سے ہی طاقتور رہی ہے لیکن کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت نے قانون سازی کے ذریعے اس کے اختیارات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

مبصرین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ نو مئی کے واقعات کے بعد بھی نادیدہ قوتوں کے اختیارات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر لشکری رئیسانی کا کہنا ہے کہ ایمان زینب مزاری کی گرفتاری اور صدر عارف علوی کے دعوے اسٹیبلشمنٹ کی بڑھتی ہوئی بے احتساب طاقت کی عکاس ہیں۔

رئیسانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اسٹیبلشمنٹ نے سیاست میں مداخلت کر کے ملک کو کئی بحرانوں سے دوچار کر دیا ہے اور اب وہ اپنی غلطیوں پر کسی طرح کی بھی تنقید برداشت کرنا نہیں چاہتی اور ہر اختلافی آواز کو دبانا چاہتی ہے۔ اسی لیے ایمان زینب مزاری اور علی وزیر کو گرفتار کیا گیا ہے اور یقینا اس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔‘‘

لشکری رئیسانی کا یہ کہنا بھی ہے کہ صدر عارف علوی کے دعوے میں وزن نظر آتا ہے، ''سب کو معلوم ہے کہ اس ملک میں کونسا ایسا طاقتور ادارہ ہے یا جو اس طرح کے دستخط کر سکتا ہے۔ ان دستخطوں کے پیچھے بھی ممکنہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کا ہی ہاتھ ہے۔‘‘

قانونی بحث اور سوالات

صدر مملکت کے دعووں کے حوالے سے کئی حلقوں میں قانونی بحث بھی چھڑ گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے کئی سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ مثلا یہ کہ اگر صدر عارف علوی نے یہ دستخط نہیں کیے تو پھر یہ دستخط کس نے کیے ہیں؟

صدر عارف علوی نے فوری طور پر اس مسئلے کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟ صدر عارف علوی نے ایوان صدر کے کسی ملازم یا اسٹاف رکن کے خلاف کوئی کاروائی کیوں نہیں کی؟

سنگین دعوے کی انکوائری ضروری ہے

کئی مبصرین کے خیال میں صدر مملکت کا دعوی انتہائی سنگین ہے اور اس کی بھرپور تفتیش ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی بھرپور انکوائری ہونا چاہیے۔

جسٹس وجیہہ الدین احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر صدر مملکت یہ دعوی کر رہے ہیں تو قانونی راستہ یہ ہے کہ وہ ایک اندرونی انکوائری ایوان صدر میں کرائیں اور ان لوگوں کی نشاندہی کروائیں جو دستخط کے عمل میں ملوث ہیں۔ اس کے لیے صدر کسی ایوان صدر کے افسر کو انکوائری افسر کے طور پر مقرر کر سکتے ہیں اور اس کو ایک خاص وقت میں انکوائری مکمل کرنے کی ہدایت کر سکتے ہیں۔‘‘

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست کا اختتام؟

خفیہ ایجنسیوں کے افسران کی شناخت ظاہر کرنے پر قید کی سزا

جسٹس وجیہہ الدین کے مطابق اس کی دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ صدر مملکت نگراں حکومت سے اس کی انکوائری کا مطالبہ کریں اور تیسری صورت میں سپریم کورٹ اس معاملے کا از خود نوٹس لے۔‘‘

حکومت کا موقف

حکومت کی طرف سے صدر عارف علوی کے ان الزامات کی تردید کی جا رہی ہے۔ وزیر اطلاعات و نشریات مرتضی سولنگی سے جب ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا، تو انہوں نے وزارت انصاف اور قانون کا اس پر نقطہ نظر ڈی ڈبلیو کو بھیجا۔

اس بیان کے مطابق جب کوئی بل صدر مملکت کو بھیجا جاتا ہے تو آئین کے مطابق وہ منظوری دیتے ہیں یا اپنے مخصوص مشاہدات یا اعتراضات کے ساتھ اسے پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیتے ہیں، ''لیکن ان دونوں شرائط میں سے کسی کو بھی پورا نہیں کیا گیا۔ بلکہ صدر نے جان بوجھ کر بل کی منظوری میں تاخیر کی۔ بل کو مخصوص مشاہدات یا منظوری کے بغیر بھیجنے کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس طرح کا عمل آئین کی روح کے خلاف ہے۔‘‘

اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر صدر کو بلوں پر کوئی اعتراض تھا تو وہ یہ اعتراض لگا کر بلوں کو واپس بھیج سکتے تھے، جیسا کہ انہوں نے حال ہی میں اور ماضی میں کیا تھا، ''وہ اس حوالے سے کوئی پریس ریلیز بھی جاری کر سکتے تھے۔ یہ بہت تشویش ناک بات ہے کہ صدر نے اپنے ہی افسران پر بے اعتمادی کا اظہار کیا ہے۔ صدر کو اپنے اقدامات کی ذمہ داری قبول کرنا چاہیے۔‘‘

سول ۔ ملٹری تعلقات میں توازن ضروری ہے، عمران خان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں