1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خفیہ ایجنسیوں کے افسران کی شناخت ظاہر کرنے پر قید کی سزا

2 اگست 2023

پاکستان ميں ايک اور ايسا بل منظور کر ليا گيا ہے، جسے کئی مبصرين جمہوری اقدار کے ليے ایک دھچکہ اور طاقت ور حلقوں کی کامیابی قرار دے رہے ہيں۔ اس بل کی ابھی سينٹ سے منظوری باقی ہے۔

https://p.dw.com/p/4UgYz
Pakistan Politik I Imran Khan
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

پاکستان میں قومی اسمبلی نے ايک ایسے متنازعہ قانونی بل  کی منظور ی دی ہے، جس کے بارے ميں مبصرين و تجزيہ کاروں کی رائے ہے کہ يہ ملک کی طاقت ور فوج کے خلاف تنقید پر قابو پانے کے ليے ہے۔ دوسری جانب اس بل کو قومی اسمبلی ميں پیش کرنے والے وزير برائے پارليمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی کا کہنا تھا کہ خفيہ معلومات سے متعلق قانون پر موثر عملدرآمد کے ليے تازہ ترميم ناگزير تھی۔

پیٹرول اور ڈیزل مہنگا: ’یہ کام جانے والی حکومت تو نہیں کرتی‘

سی پیک منصوبہ: پاکستان کو کتنا نفع اور کتنا نقصان ہوا؟

باجوڑحملہ: حکومت دہشت گردانہ کاروائیوں کی روک تھام میں ناکام کیوں؟

يہ بل منگل يکم اگست کو منظور کيا گيا۔ بل کی شقوں کے تحت خفیہ ایجنسیوں کے کسی بھی آفيسر کی شناخت ظاہر کرنے والے کو تين سال تک قيد کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ قوی امکان ہے کہ سينيٹ سے اس بل کی منظوری اسی ہفتے ہو جائے گی، جس کے بعد  صدر مملکت کے دستخطوں سے یہ بل قانون کی شکل اختیار کر لے گا۔

بل کا پس منظر

فوج سے متعلق اس متنازعہ بل کی منظوری ايک ايسے موقع پر سامنے آئی ہے، جب سابق وزير اعظم عمران خان کی جانب سے فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکارو پر براہ راست تنقيد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ گزشتہ برس عدم اعتماد کی ايک تحريک کے نتيجے ميں پاکستان تحريک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے پاکستان ايک شديد سياسی و اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔ عمران خان نے کھل کر براہ راست کئی فوجی افسران کے نام لے کر انہيں اپنی حکومت کے خلاف 'سازش‘ کا حصہ قرار ديا۔   

چند ہی روز قبل قومی اسمبلی اور سينيٹ ایک  ايسے قانون کی بھی منظوری دے چکے ہیں، جس کے تحت حاضر سروس يا ريٹائرڈ فوجی کو اگر سياسی امور ميں مداخلت يا خفيہ معلومات عام کرتے پايا گيا تو انہيں پانچ سال تک کی قيد کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

 سياسی مبصرين کا کہنا ہے کہ  حاليہ قانون سازی در اصل اس ليے کی جا رہی ہے تاکہ ان چند ايک ريٹائرڈ فوجی افسران کے خلاف قانونی کارروائی کی راہ ہموار کی جا سکے جو فوج پر تنقيد کرتے آئے ہيں۔ مذکورہ افسران عمران خان کے حامی ہيں۔ خان کو ڈيڑھ سو سے زائد کيسوں کا سامنا ہے، جن ميں مالی بدعنوانی، لوگوں کو تشدد پر اکسانے اور ديگر سنگين معاملات شامل ہيں۔ سابق وزير اعظم ان تمام کيسز کو 'سياسی‘ قرار ديتے ہيں۔

واضح رہے کہ وزير اعظم شہباز شريف کی حکومت اپنی پارليمانی مدت پوری کرنے کے بعد دو ہفتے ميں ختم ہونے کو ہے۔ بعد ازاں ملک میں اکتوبر يا نومبر ميں عام انتخابات ہونے ہيں۔

باجوڑ بم دھماکے ہلاکتوں کی تعداد 54 ہو گئی

ع س / ش خ (اے پی)