1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صحافتی بہادری کا ایوارڈ چینی اور فلسطینی صحافیوں کے نام

18 نومبر 2021

سن 2021 کے لیے پریس فریڈم ایوارڈز حاصل کرنے والوں کے ناموں کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ پریس فریڈم ایوارڈز کورونا وائرس کو رپورٹ کرنے والی چینی صحافی، انویسٹیگیٹو کنسورشیم اور فلسطینی خاتون رپورٹر کو دیے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/43Byn
Bildkombo Journalistinnen Majdoleen Hassona (L) und Zhang Zhan

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے پریس فریڈم ایوارڈز برائے سال 2021 کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ پریس فریڈم ایوارڈز دینے کا سلسلہ سن 1992 میں شروع کیا گیا تھا۔ اس ایورڈ کا مقصد صحافیوں کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کا اعتراف کرنا ہے۔ یہ ایوارڈ ان جرنلسٹس کے لیے بھی وقف کیا گیا، جن کی شاندار صحافیانہ ذمہ داریاں آزادئ صحافت کے وقار میں اضافے اور تحفظ کا سبب بنتی ہیں۔

دنیا بھر میں چودہ سو سے زائد صحافی قتل: پیپلز ٹریبیونل میں سماعت شروع

خطرناک وائرس، خطرناک رپورٹنگ

دسمبر سن 2019 میں ایک پراسرار وائرس چین کے شہر ووہان میں پھیلنا شروع ہوا۔ اُس وقت کسی کو یہ احساس نہیں تھا کہ یہ وائرس افزائش پا کر عالمی وبا بن جائے گا اور لاکھوں انسانوں کی موت کا بھی سبب بنے گا۔ ایک ماہ بعد تئیس جنوری سن 2020 کو ووہان میں پوری طرح لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا۔

China Journalistin Zhang Zhan
چینی عدالت نے ژانگ ژان کو دسمبر سن 2020 میں چار برس کی سزا سنائیتصویر: YOUTUBE/AFP

فروری سن 2020 کو چین کے مالیاتی مرکز شنگھائی سے ایک آزاد صحافی ژانگ ژان ووہان کے سفر پر روانہ ہوئیں تا کہ وہ حقیقت کو جان پائیں۔ ان کے اس سفر اور مرتب کردہ رپورٹس کو صحافیوں کی تنظیم نے ''جرنلسٹک کرج‘‘ یا صحافتی بہادری کی کیٹیگری میں شمار کیا اور انہیں رواں برس کے ایوارڈ کا حقدار ٹھہرایا۔

کورونا رپورٹنگ کرنے والی بہادر خاتون

اڑتیس سالہ ژانگ ژان کی رپورٹ سوشل میڈیا پر دنیا بھر میں عام ہوئی تھی۔ اس میں ووہان کے مریضوں سے بھرے ہسپتالوں کا احوال اور لاک ڈاؤن میں پھنسی زندگی کو بیان کیا گیا۔ وہ ووہان میں مقیم ہو کر رپورٹنگ کرتی رہیں اور پھر چودہ مئی سن 2020 کو اچانک لاپتہ ہو گئیں۔

امریکا میں مظاہرين کے ساتھ ساتھ ميڈیا بھی زیر عتاب

بعد میں معلوم ہوا کہ چینی حکام نے انہیں گرفتار کر کے واپس شنگھائی کی ایک جیل میں پہنچا دیا تھا۔ وہ کئی دن جیل میں بغیر کسی الزام کے قید رکھی گئیں۔ چینی عدالت نے دسمبر سن 2020 میں انہیں چار برس کی سزا سنا دی اور عدالت میں ﺍستغاثہ نے ژانگ ژان پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ جھگڑا کرنے کے علاوہ اشتعال انگیزی کی مرتکب ہوئی ہیں۔

انہوں اس سزا کے دوران ایک مرتبہ پھر بھوک ہڑتال شروع کر دی، جو اب تک جاری ہے۔ انہیں خوراک کی نالی کے ساتھ زبردستی معدے میں کھانا پہنچایا جاتا ہے۔ ان کا وزن چالیس کلوگرام کم ہو چکا ہے۔

Symbolfoto Pegasus Projekt
پیگاسس پراجیکٹ صحافیوں کا ایک بین الاقوامی کنسورشیم ہےتصویر: Jean-François Frey//L'ALSACE/PHOTOPQR/MAXPPP7/picture alliance

یہ امر اہم ہے کہ ژانگ ژان ایک وکیل بھی ہیں اور ہانگ کانگ میں ستمبر 2019ء  کو اظہارِ یکجہتی کی ریلی میں حصہ لینے کی بنیاد پر جیل میں ڈال دی گئی تھیں، جہاں انہیں پینسٹھ ایام کے بعد اس لیے رہا کر دیا گیا کہ انہوں نے بھوک ہڑتال کر رکھی تھی۔

’کورونا کوریج‘ پر نشانہ بننے والے صحافیوں کے لیے ڈی ڈبلیو کا ایوارڈ

نگرانی کے مانیٹرز

پیگاسس پراجیکٹ صحافیوں کا ایک بین الاقوامی کنسورشیم ہے اور اس میں گیارہ ملکوں کے اسی صحافی شامل ہیں۔ یہ کئی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والا ادارہ ہے۔ اسے بھی رواں برس پریس فریڈم ایوارڈ دیا گیا۔

صحافیوں نے کنسورشیم کا نام ایک اسرائیلی کمپنی کے تیارکردہ جاسوسی کے پروگرام پیگاسس سے مستعار لیا۔ یہ پروگرام مختلف ممالک کی سکیورٹی ایجنسیوں نے دہشت گردی اور حکومت مخالفین کی نگرانی کے لیے بھی خریدا۔ ان میں سعودی عرب، بھارت اور ہنگری بھی شامل ہیں۔ میکسیکو کی حکومت صحافیوں کی نگرانی کے لیے پیگاسس پروگرام کو استعمال کرتی رہی ہے۔

آزادی صحافت کا عالمی دن: ایک سال میں آٹھ پاکستانی صحافی قتل

پراجیکٹ کنسورشیم کے صحافیوں نے اس سافٹ ویئر بابت حیران کن تفصیلات پر مبنی ایک رپورٹ عام کی۔ اس میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں دو سو میڈیا پروفیشنلز کی جاسوسی کی جاتی ہے۔ رپورٹز وِدآؤٹ بارڈرز جرمنی کے ڈائریکٹر کرسٹیان میہر نے اس سافٹ ویئر پر مکمل بین الاقوامی پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔

فلسطینی صحافی

فلسطین کی صحافی خاتون مجدولینا حسینہ کوئی اجنبی نہیں کیوں کہ ان کی ناقدانہ رپورٹس عالمی شہرت کا باعث ہیں۔ ان کی وجہ سے انہیں اسرائیلی اور فلسطینی حکام کے قہر کا بھی سامنا ہے۔

Majdoleen Hassona
فلسطین کی صحافی خاتون مجدولینا حسینہ ناقدانہ رپورٹنگ میں شہرت رکھتی ہیںتصویر: privat

مجدولینا حسینہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسرائیل پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ارتکاب پر تنقید کی اور اسی طرح فلسطینی اتھارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا کیونکہ اس کے اہلکاروں میں پائی جانے والی کرپشن کو ظاہر کیا تھا۔ حسینہ کے مطابق دونوں اطراف سے انہیں ٹارگٹ کر کے نقصان پہنچایا گیا اور الزامات بھی عائد کیے گئے۔

’صحافت ہتھیار ڈالنے کا نہیں، سچ رپورٹ کرنے کا نام ہے‘

سن 2015 میں انہوں نے ترک ٹیلی وژن ٹی آر ٹی میں ملازمت بھی اختیار کی۔ قبل ازیں وہ فلسطینی نیوز ایجنسیوں کے ساتھ بھی وابستہ رہیں تھیں۔ ان کو اسرائیلی خفیہ ادارے کی پابندی کا بھی سامنا ہے اور اس باعث وہ صرف ویسٹ بینک میں محدود ہو کر رہ گئی ہیں لیکن ایک صحافی کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔

جرمن زبان سے ترجمہ شدہ

تھوماس لاشان (ع ح/ ا ا)