1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا کوریج: نشانہ بننے والے صحافی ڈی ڈبلیو ایوارڈ کے حقدار

3 مئی 2020

دھمکیاں، تشدد اور گرفتاریاں: کووڈ انیس کی کوریج کے دوران دنیا بھر میں صحافیوں کو ہراسانی اور ظلم وستم کا سامنا ہے۔ ڈی ڈبلیو نے اسی کام کے اعتراف میں امسالہ آزادیِ صحافت ایوارڈ ایسے ہی صحافیوں کو دینے کا اعلان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3biCa
Tanzania We need freedom of press
تصویر: DW/A. Juma

ڈی ڈبلیو  کا امسالہ آزادیِ صحافت ایوارڈ  کورونا وائرس کے ب‍حران کی کوریج کرنے والے چاروں براعظموں کے درجنوں صحافیوں کو دیا جا رہا ہے۔فریڈم آف اسپیچ ایوارڈ ایک طرح سے دنیا بھر کی صحافتی برادری اور ان میڈیا پروفیشنلز کی جانب سے اس کے حقداروں کے لیے خراج تحسین ہے، جو مشکل حالات میں کام کرتے ہوئے اس وبا کے بارے میں آزادانہ معلومات فراہم کر رہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کے ڈائریکٹر جنرل پیٹر لمبورگ نے برلن میں یہ ایوارڈ جیتنے والوں کے ناموں کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ''طبی شعبے میں نافذ ہنگامی حالت کے اس دور میں صحافی کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں اور ہر صحافی پر  بڑی ذمہ داری عائد ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ تمام ممالک کے شہریوں کو مصدقہ اور تنقیدی معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے: ''کسی بھی طرح کی سینسر شپ کے نتیجے میں اموات ہو سکتی ہیں اور موجودہ حالات کی مجرمانہ یا غلط رپورٹنگ کی کوئی بھی کوشش آزادی اظہار کی کھلی خلاف ورزی ہو گی۔‘‘

حملے، دھمکیاں، گرفتاریاں

اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل باچلیٹ نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں یہ ایوارڈ جیتنے والے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عام شہریوں کو اس وقت اس وبا کے بارے میں درست معلومات کی ضرورت ہے اور انہیں ان فیصلوں میں بھی شامل کیا جانا چاہیے، جو ہماری جانب سے لیے جا رہے ہیں، ''یہ بہت ہی حیران کن ہے کہ اس وبا کی رپورٹنگ کے دوران صحافیوں پر حملے کیے جا رہے ہیں، دھمکیاں دی جا رہی ہیں، گرفتار کیا جا رہا ہے اور ان پر من گھڑت جرائم کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں اور انہیں غائب تک کیا جا رہا ہے۔‘‘

2020 Freedom of Speech Award

صحافتی تنظیموں کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کے دوران آزادیِ صحافت پر بڑے پیمانے پر قدغن لگائی جا رہی ہے۔رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''دنیا کے ہر حصے میں آمریت پسند ‌حکومتیں ملکی میڈیا کو قابو میں کرنے کے لیے اور ریاستی سینسر شپ کو بڑھانے کے لیے اس بڑے بحران کو استعمال کر رہی ہیں۔‘‘

بین الاقوامی پریس انسٹی ٹیوٹ نے اپریل کے دوران دنیا بھر میں آزادیِ صحافت کی خلاف ورزیوں کے 150 واقعات کے بارے میں بتایا۔آئی پی آئی نے اس دوران سینسر شپ اور معلومات تک رسائی نہ دینے کا بھی تذکرہ کیا تاہم زیادہ سنگین وہ واقعات ہیں، جن میں صحافیوں کو گرفتار کیا گیا اور ساتھ ہی ان پر زبانی اور جسمانی حملے کیے گئے۔

مجھے موت سے ڈر نہیں لگتا

صحافیوں کے لیے خاص طور پر ایسے ممالک میں کام کرنا اور بھی مشکل ہے، جن میں پہلے ہی صحافیوں کو محدود آزادی حاصل ہے، جیسا کہ چین، جہاں دسمبر 2019ء میں کورونا وائرس کی یہ نئی قسم پہلی مرتبہ سامنے آئی تھی۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے نشاندہی کی ہے کہ چین کی جانب سے خبروں کو مکمل قابو میں کرنے کے اثرات کو پوری دنیا نے م‍‍‍‍حسوس کیا۔ کسی بھی شبے کی صورت میں سینسر شپ کو صحت اور سلامتی پر فوقیت دی گئی۔آزادیِ صحافت کے عالمی انڈیکس میں اس سال چین 180 ممالک کی فہرست میں 177 ویں مقام پر ہے۔ 

Chen Qiushi
چھ فروری کو وکیل شین کوئشی لاپتہ ہوئے تھے اور وہ اس وقت تک ٹوئیٹر اور یو ٹیوب کے ذریعے قرنطینہ کے دوران ووہان کی صورتحال سے لوگوں کو آگاہ کر رہے تھے۔تصویر: Chen Qiushi

چین میں کووڈ انیس کی وبا کے بارے میں معلومات پھیلانے والے کئی سٹیزن جرنلسٹوں کی گمشدگیاں بھی بین الاقوامی خبروں میں شہ سرخیوں کے طور پر شامل رہیں۔ چھ فروری کو وکیل شین کوئشی لاپتہ ہوئے تھے اور وہ اس وقت تک ٹوئیٹر اور یو ٹیوب کے ذریعے قرنطینہ کے دوران ووہان کی صورتحال سے لوگوں کو آگاہ کر رہے تھے۔ اپنی گمشدگی سے چند دن قبل اپنی ایک یو ٹیوب ویڈیو میں انہوں نے کہا تھا، ''مجھے ڈر ہے۔یہ بیماری میرے سامنے ہے اور چینی پولیس اور عدلیہ میرے پیچھے۔‘‘ ان کی یہ ویڈیو تقریباﹰ تیس لاکھ مرتبہ دیکھی گئی۔ انہوں نے اس ویڈیو میں مزید کہا، ''مگر، جب تک میں زندہ ہوں، اس وقت تک میں رپورٹ کرتا رہوں گا اور جو میں نے خود دیکھا اور سنا ہے اسی بنیاد پر معلومات آ گے بڑھاؤں گا۔ مجھے موت سے ڈر نہیں لگتا۔ کمیونسٹ پارٹی، کیا تمہیں لگتا ہے کہ میں تم سے خوف زدہ ہوں؟‘‘

کاروباری شخصیت فینگ بن نے بھی ووہان کی ایسی ہی ویڈیوز شائع کی تھیں اور اپنے اس شہر کے حالات کو براہ راست بھی دکھایا تھا۔ یکم فروری کو انہوں نے دیگر کے علاوہ ایک ہسپتال کے باہر کھڑی ایک ایسی گاڑی دکھائی تھی، جو کپڑوں میں لپٹی ہوئی لاشوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس کے اگلے دن فینگ نے رپورٹ کیا کہ پولیس نے ان کا لیپ ٹاپ قبضے میں کرتے ہوئے ان سے پوچھ گچھ کی ہے۔ نو فروری سے فینگ کا کچھ اتا پتا نہیں ہے۔ اسی طرح سینسر شپ کے خلاف سرگرم تین چینی کارکن بھی لاپتہ ہیں۔

دھمکیاں اوپر سے

روس میں صحافی ایلینا میلاشینا کے واقعے نے بھی بین الاقوامی توجہ حاصل کی۔ ایوارڈ یافتہ یہ صحافی 1996ء سے اخبار نووایا گازیٹا کے لیے لکھ رہی ہیں۔ میلاشینا اس وقت دھمکیوں کا ہدف بنیں جب انہوں نے ایک مقامی رہنما رمضان قادروف کے حوالے سے تنقیدی رپورٹنگ کی کہ روسی فیڈریشن کس طرح کورونا وائرس کے حوالے سے اقدامات کر رہی ہے۔اپریل کے وسط میں میلاشینا نے ایک آرٹیکل لکھا کہ کووڈ انیس سے متاثرہ علاقوں کے افراد انتقامی کارروائی کے خدشے کے پیش نظر  کس طرح علاج معالجے سے دور  رہ رہے تھے۔ اس کے ایک روز بعد سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک رپورٹ میں قادروف نے سلامتی کے روسی اداروں سے شہریوں کو اکسانے والے اس طرح کے غیر انسانی افراد کو روکنے کا کہا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس بیان کو میلاشینا کے خلاف قتل کی دھمکی کے طور پر دیکھا تھا۔ جرمنی اور فرانس نے بھی میلاشینا کو دی جانے والی اس دھکمی کے خلاف روس سے کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

’آپ تک سچ پہنچانےکے ليے ہم ہر خطرہ مول ليں گے‘

بارہ روزہ حراست

اکیس مارچ کو وینزویلا کے خصوصی دستوں (ایف اے ای ایس) نے ایک پچیس سالہ صحافی دراونسن روخاس کو دارالحکومت کاراکس میں ان کے فلیٹ سے گرفتار کیا۔ وجہ گرفتاری کوورنا وائرس کے بارے میں ان کی رپورٹنگ۔

Hongkong | Protest | Journalist Fang Bin
کاروباری شخصیت فینگ بن نے بھی ووہان کی ایسی ہی ویڈیوز شائع کی تھیں اور اپنے اس شہر کے حالات کو براہ راست بھی دکھایا تھا۔تصویر: Getty Images/AFP/I. Lawrence

روخاس نے ٹویٹر پر لکھا کہ 'ایف اے ای ایس‘ کے افسران نے دعویٰ کیا کہ انہیں خفیہ طور پر کورونا وائرس کے ایک مریض کے بارے میں اطلاع ملی تھی۔ ایمنسٹی کے مطابق بعد ازاں پولیس نے روخاس سے یہ پوچھ گچھ کی تھی کہ  انہیں کورونا کے بارے میں وہ اعداد و شمار کہاں سے ملے، جو انہوں نے شائع کیے تھے۔ بارہ روز حراست میں رکھنے کے بعد روخاس کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ ان پر دیگر کے علاوہ  نفرت انگیزی کو بڑھاوا دینے اور عوام کو مشتعل کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ایمنسٹی کے مطابق یہ الزامات دراصل دراونسن روخاس کو خاموش کرانے کے لیے عائد کیے گئے ہیں تاکہ وہ وینزویلا میں اس وبا کے بارے میں مزید نہ لکھیں۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق وینزویلا میں2107ء سے صحافتی شعبے سے وابستہ افراد کو دھمکیاں دینے اور  ان کی جبراﹰ گرفتاریوں کے علاوہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی جانب سے ان کے خلاف تشدد کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کا مقید صحافیوں کی رہائی کا مطالبہ

ڈی ڈبلیو کے ڈائریکٹر جنرل پیٹر لمبورگ نے اس تناظر میں کہا، ''ہم ان مشکل حالات میں اپنے ان تمام ساتھیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جنہیں زبردستی ان کا کام کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو دنیا بھر کے ان تمام صحافیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتا ہے، جنہیں کووڈ انیس کے بارے میں رپورٹنگ کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔‘‘

Die Journalistin Jelena Milaschina
میلاشینا اس وقت دھمکیوں کا ہدف بنیں جب انہوں نے ایک مقامی رہنما رمضان قادروف کے حوالے سے تنقیدی رپورٹنگ کی کہ روسی فیڈریشن کس طرح کورونا وائرس کے حوالے سے اقدامات کر رہی ہے۔تصویر: imago stock&people

ڈی ڈبلیو کی جانب سے آزادیِ صحافت کا ایوارڈ دینے کا سالانہ سلسلہ 2015ء سے جاری ہے۔ اس دوران انسانی حقوق اور آزادیِ اظہار کے حق کے دفاع کی خاطر گراں قدر خدمات انجام دینے والی شخصیات اور اداروں کو اس کا حقدار ٹھہرایا جاتا ہے۔

 ماضی میں سعودی بلاگر رائف بدوی، وائٹ ہاؤس کوریسپونڈینٹس ایسوسی ایشن اور میکسیکو کی صحافی اور مصنفہ انابیل ہیرنانڈیس یہ ایوارڈ جیت چکی ہیں۔ روایتی طور پر تقسیم ایوارڈ کی تقریب ہر سال بون میں ہونے والے گلوبل میڈیا فورم کے موقع پر ہوتی ہے تاہم اس مرتبہ کورونا وائرس کی وجہ سے ڈی ڈبلیو کی یہ کانفرنس آن لائن منعقد کی جائے گی۔

ہیلنا کاشیل (ع ا / ا ب ا)