1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف کانگریس کا احتجاج

23 دسمبر 2019

بھارت میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی نے مودی حکومت پر عوام میں نفرت پھیلانے اور ان پر تشدد کرنے جیسے الزام عائد کرتے ہوئے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3VGqp
Indien Neu Delhi | Demonstration der Opposition
تصویر: Getty Images/AFP/P. Singh

آج پیر 23 دسمبر کو کانگریس پارٹی کی کارگزار صدر سونیا گاندھی، سابق وزیراعظم منموہن سنگھ، راہول گاندھی، پریانکا گاندھی اور احمد پٹیل سمیت تقریباﹰ تمام بڑے کانگریسی رہنما راج گھاٹ پر پہنچے اور وہاں قائم گاندھی جی کی سمادھی کے سامنے دھرنا دیا۔

اس موقع پر سونیا گاندھی نے بھارت کے آئین کے تحفظ کی بات کرتے ہوئے حکومت کی ’نفرت انگیز‘ پالیسیوں پر نکتہ چینی کی۔ انھوں نے کہا کہ حکومت عام شہریوں کے جان مال کے تحفظ میں ناکام رہی ہے اور پولیس کی فائرنگ میں اب تک کئی لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔

 اس موقع پر سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے سب سے پہلے بھارتی آئین کے دیباچے کو انگریزی میں پڑھا پھر پریانکا گاندھی نے ہندی میں اور اس طرح کئی رہنماؤں نے اپنی اپنی علاقائی زبان میں اس کو دہرایا۔ اس دھرنے میں کانگریس پارٹی کے بعض وزرائے اعلٰی بھی شامل تھے۔

Indien Parteivernastaltung Narendra Modi  Rede
نئی دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ریلی سے خطاب میں حکومت کے اقدامات کا دفاع کیا تھا اور کہا تھا کہ حزب اختلاف کی جماعتیں اس سے متعلق لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا کر رہی ہیں۔تصویر: Getty Images/AFP/P. Singh

پارٹی نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف طلبہ کے مظاہروں کی حمایت کی اور ان پر ہونے والے تشدد کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ پریانکا گاندھی نے اس موقع پر بجنور میں ہلاک ہونے والے ایک نوجوان کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ’’بجنور میں آنسوؤں سے بھری ایک ماں نے مجھے بتایا کہ میرا بیٹا اس ملک کے لیے مارا گیا ہے۔ بجنور میں پانچ بچے اپنے اس باپ کا انتظار کر رہے ہیں جو ہسپتال میں زخموں سے چھلنی ہے۔ جو اس انقلاب میں ہلاک اور زحمی ہوئے ان کے نام پر ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے آئین کو بچائیں گے۔‘‘

کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ حکومت نے جو شہریت ترمیمی ایکٹ منظور کیا ہے اس کے لیے ملکی سطح پر لوگوں میں، خاص طور پر نوجوانوں میں، بی جے پی کے خلاف ناراضگی پائی جاتی ہے۔

آج جنوبی بھارت کی بھی کئی ریاستوں میں اس ایکٹ کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ تامل ناڈو کے دارالحکومت چنئی میں اس مظاہرے کی قیادت ڈیم ایم کے رہنما ایم کے اسٹالن نے کی جس میں کانگریس رہنما پی چدمبرم نے بھی شرکت کی۔ لیکن تعداد کی مناسبت سب سے بڑا احتجاجی  مظاہرہ جنوبی شہر بنگلور میں ہوا جس میں کئی لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ اس کا اہتمام ایک غیر سرکاری تنظیم نے کیا تھا۔ 

ریاست کیرالا کے شہر کوچی میں بھی اسی نوعیت کا ایک پروگرام ہوا جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت اور شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف زبردست نعرے بازی کی۔ جادھو پور یونیورسٹی جیسی مختلف یونیورسٹیز میں بھی اس کے خلاف احتجاج جاری ہے۔

ادھر حمکران جماعت بی جے پی نے اس قانون کی حمایت میں کولکتہ میں ایک بڑی ریلی کی جس میں اس کے کئی رہنما شریک ہوئے۔ گزشتہ روز نئی دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ریلی سے خطاب میں حکومت کے اقدامات کا دفاع کیا تھا اور کہا تھا کہ حزب اختلاف کی جماعتیں اس سے متعلق لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا کر رہی ہیں۔ انہوں نے پولیس کی کارروائیوں کی بھی حمایت کی تھی جس میں اب تک دو درجن افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ریاست اترپردیش میں ہوئیں اور مجموعی طور پر اب تک دو درجن افراد مارے جا چکے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے عوام کی آواز دبانے کے لیے اس طرح کا سخت رویہ اپنایا ہے۔

ادھر اتر پردیش کی حکومت نے ان افراد کی جائیدار اور دکانوں کو ضبط کرنا شروع کر دیا ہے جو بقول پولیس احتجاج کے دوران تشدد میں میں شامل ہوئے تھے۔ اب تک اس سلسلے میں درجنوں دکانوں کو سیل کیا گیا جو بیشتر مسلمانوں کی ہیں۔ عدالت کی جانب سے بھی ان افراد کو اب تک ضمانت نہیں ملی ہے جنھیں پولیس نے تشدد کے الزام ميں گرفتار کیا تھا۔

شہریت کے متنازعہ قانون کے خلاف بھارت میں مظاہرے