1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

شمالی کوریا نے جاپان کے اقتصادی زون میں میزائل فائر کر دیا

18 نومبر 2022

شمالی کوریا نے ایک روز قبل بیلسٹک میزائلوں کا تجربہ شروع کیا تھا اور اطلاعات کے مطابق جمعے کی صبح اس کا ایک میزائل جاپان کے علاقے میں گرا۔ اس نے ایسی مزید کارروائیاں کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔

https://p.dw.com/p/4Jilj
Symbolbild I Nordkorea feuert Raketen
تصویر: YNA/Yonhap/picture alliance

جنوبی کوریا  کی فوج کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نے 18 نومبر جمعے کے روز ایک اور مبینہ بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا، جس کی جاپان نے بھی تصدیق کی ہے۔ جاپانی کوسٹ گارڈز کے مطابق امکان ہے کہ میزائل ہوکائیڈو کے مغرب میں تقریباً 210 کلومیٹر کے فاصلے پر سمندر میں گرا ہے۔

شمالی کوریا نے جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دے دی

جنوبی کوریا کے ایک دفاعی اہلکار نے مزید تفصیلات بتائے بغیر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے اس بات کا، ''اندازہ لگایا ہے کہ شمالی کوریا نے بین البراعظمی میزائل (آئی سی بی ایم)  فائر کیا۔

امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا کا شمالی کوریا کو سخت وارننگ

سیول کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف نے اپنے پہلے بیان میں کہا تھا کہ اس نے ''مشرق کی سمت میں ایک نامعلوم بیلسٹک میزائل داغے جانے '' کا پتہ لگایا ہے۔

جوہری تجربات ماحول پر کیسے نشانات چھوڑتے ہیں؟

جاپان کا رد عمل

ٹوکیو نے بھی لانچ کی تصدیق کی، جاپان کی وزارت دفاع نے کہا کہ پیونگ یانگ نے ''مشتبہ طور پر ایک بیلسٹک میزائل'' فائر کیا جبکہ کوسٹ گارڈ نے جہازوں کو خبردار کر دیا ہے کہ وہ سمندر میں گرے ہوئے ملبے کے قریب نہ جائیں۔

جاپانی وزیر اعظم فومیو کشیدا نے جمعے کے روز کہا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ شمالی کوریا کا ایک میزائل ہوکائیڈو کے شمالی علاقے سے تھوڑے فاصلے پر جاپان کے خصوصی اقتصادی زون (ای ای زیڈ) کے اندر پانی میں گرا ہے۔

کیشیدا نے بنکاک میں اس بارے میں نامہ نگاروں سے بات چیت میں کہا ''شمالی کوریا کی طرف سے داغاگیا بیلسٹک میزائل ہوکائیڈو کے مغرب میں ہمارے خصوصی اقتصادی زون والے پانیوں میں گرا ہے۔''

انہوں نے اس اقدام کو ''قطعی ناقابل قبول'' قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میزائل سے بحری جہاز یا پھر کسی ہوائی جہاز کو نقصان پہنچنے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔

اس سے پہلے جاپان کے وزیر دفاع یاسوکازو ہمادا نے کہا تھا کہ مذکورہ میزائل کی رینج امریکہ کی سرزمین تک پہنچنے کے لیے کافی ہے۔ واضح رہے کہ شمالی کوریا نے گزشتہ روز بھی ایک میزائل لانچ کیا تھا۔

Südkorea, Seoul | TV Berichterstattung über nordkoreanische Raketentests
شمالی کوریا کا بین البراعظمی میزائل (آئی سی بی ایم) سب سے طویل فاصلے تک مار کرنے والا میزائل ہے اور یہ براعظم امریکہ کے کسی بھی مقام تک جوہری ہتھیار پہنچانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہےتصویر: Ahn Young-joon/AP/picture alliance

میزائل تجربات سے تشویش میں اضافہ

شمالی کوریا نے گزشتہ روز بھی ایک میزائل فائر کیا تھا اور اس کے ساتھ ہی اس نے متنبہ بھی کیا تھا کہ وہ اس طرح کی مزید کارروائیاں کرے گا۔ اس سے اس طرح کے خدشات میں اضافہ ہوا کہ بہت جلد ہی وہ ایٹمی ہتھیار کا تجربہ کر سکتا ہے۔

شمالی کوریا کا بین البراعظمی میزائل (آئی سی بی ایم) سب سے طویل فاصلے تک مار کرنے والا میزائل ہے اور یہ براعظم امریکہ کے کسی بھی مقام تک جوہری ہتھیار پہنچانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

رواں برس شمالی کوریا نے غیر معمولی تعداد میں بیلسٹک میزائلوں کے تجربات کیے ہیں۔ پیونگ یانگ نے دو نومبر کے دن 23 میزائل داغے تھے، جو سن 2017 کے پورے سال کی اس کی مجموعی تعداد کو پیچھے چھوڑ گئے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت اس طرح کے تجربات ممنوع ہیں، جس نے ملک پر میزائل اور جوہری ہتھیاروں کے پروگراموں کے تجربات پر پابندی لگا رکھی ہے۔

شمالی کوریا کی جنگی مشقوں کی مذمت

ایک دن پہلے ہی چوئے سون ہوئی نے، امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان کے درمیان اس سہ فریقی ملاقات پر تنقید کی تھی، جس میں پیونگ یانگ کے میزائل تجربات کی مذمت کرنے کے ساتھ ہی مضبوط سیکورٹی  کے تعاون کا عزم کیا گیا۔

شمالی کوریا کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ان ملکوں کی ''جارحانہ جنگی مشقیں '' اپنے اوپر ایک ''زیادہ سنگین، حقیقت پسندانہ اور ناگزیر خطرے'' کو دعوت دے رہی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے لیے 'توسیع شدہ تدارک کی جتنی مضبوط پیشکش کرے گا اور وہ جس قدر اشتعال انگیز اور  فوجی سرگرمیوں کو تیز کرے گا، شمالی کوریا کا رد عمل، اس سے بھی شدید ہو گا۔''

ان کا کہنا تھا، ''امریکہ کو اچھی طرح معلوم ہو جائے گا کہ یہ وہ جو یہ جوا کھیل رہا ہے، اس کے لیے وہ ایک دن یقیناً پچھتائے گا۔''

امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں سے لیس شمالی کوریاکی بڑھتی ہوئی اشتعال انگیزیوں کے جواب میں علاقائی سلامتی کے تعاون کو مضبوط بنانے اور مشترکہ فوجی مشقوں کو بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ تاہم شمالی کوریاایسے تمام اقدامات کو امریکی جارحیت کی علامت سمجھتا ہے۔

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)