1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام سے فرار ہو کر اردن پہنچنا بہت مہنگا ہو گیا

12 مارچ 2012

شام کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں بہت سے لوگ سرحد عبور کر کے ہمسایہ ملک اردن جا رہے ہیں، مگر اس سفر کے اخراجات میں اضافہ ہوشربا ہوتا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/14JFC
تصویر: AP

شام کے ایک سرگرم کارکن ابو اعلٰی نے ایک لاکھ ڈالر کے عوض اپنی موت کا سرٹیفکیٹ خریدا ہے، جسے وہ اپنی آزادی کا ٹکٹ سمجھتے ہیں۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس سرٹیفیکیٹ کے نتیجے میں شام کی سکیورٹی اور عسکری انٹیلی جنس ایجنسیاں یہ سمجھیں گی کہ وہ مارے جا چکے ہیں اور یوں اُنہیں اُن کے شکنجے سے بچنے میں مدد ملے گی۔

شام کے حالات سے مجبور ہو کر اردن کا رُخ کرنے والے بیشتر افراد کو اب سرحدی محافظوں کو رشوت دینا پڑتی ہے، جس کی مالیت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ابو اعلٰی نے دعوٰی کرتے ہوئے کہا، ’اب آپ کسی اہلکار یا فوجی کی مٹھی گرم کیے بغیر شام کے ایک محلے سے دوسرے محلے تک بھی نہیں جا سکتے‘۔

شام کے سرگرم کارکنوں اور مہاجرین کا کہنا ہے کہ شامی حکام کی جانب سے اردن کے ساتھ ملنے والی سرحد کی نگرانی سخت کرنے کے بعد اب حمص اور درعا سے فرار ہونے والوں کے لیے یہ قیمت پانچ ہزار ڈالر فی کس تک جا پہنچی ہے۔

مہاجرین کو سرحد تک لے جانے والی نجی گاڑیوں کے کرایے ایک سو ڈالر فی کس تک پہنچ چکے ہیں۔

Syrien Armee vor Damaskus
گزشتہ برس مارچ سے شامی فورسز کے کریک ڈاؤن کے باعث بہت سے لوگ شام سے ہمسایہ ملکوں کو نقل مکانی کر رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

اردن کے ایک بس ڈرائیور احمد عامر نے بتایا کہ گزشتہ برس مارچ کے بعد سے اردن کو فرار ہونے والے افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث کئی بس ڈرائیوروں نے اپنا باقاعدہ روٹ تبدیل کر لیا ہے اور وہ ان مہاجرین کو لے جانے کے عوض بھاری رقوم کما رہے ہیں۔

عمار کے مطابق ان کا یہ کاروبار تین مارچ کو اس وقت اچانک رک گیا جب شامی فورسز نے ان کی بس پر فائرنگ کر دی کیونکہ انہیں شبہ تھا کہ وہ باغیوں اور منحرفین کو اردن لے کر جا رہا ہے۔ تاہم اس واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

سرحد پر شامی فورسز کی موجودگی کے بعد انسانی اسمگلر ان افراد کو اردن پہنچانے کے لیے مختلف اور دشوار راستے اختیار کر رہے ہیں اور بعض صورتوں میں تو اس کے ا‌خراجات بیس ہزار ڈالر فی خاندان تک ہیں۔

شامی مہاجرین کو سہولیات فراہم کرنے والی ایک اہم سوسائٹی کتاب و سنہ کے ڈائریکٹر زیاد حماد نے بتایا، ’ابتدا میں اردن آنے والے بیشتر شامی باشندوں کے پاس اتنی رقم ہوتی تھی کہ وہ پانچ چھ ماہ تک اپنا گزارہ چلا سکتے تھے۔ اب آنے والے افراد کی بڑی تعداد کے پاس بمشکل ہی ایک ماہ کے کرایے کی رقم ہوتی ہے۔‘

اردن کے سرحدی علاقوں میں خوراک اور کرایوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث ہجرت کر کے آنے والے بہت سے افراد اب اپنے فیصلے پر پچھتا رہے ہیں۔

یاسر ابو خلیل نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی پچاس ہزار ڈالر اس سفر پر لگا دی مگر اب ان کے پاس نہ اپنا پاسپورٹ ہے اور نہ ہی وہ کام تلاش کر سکتے ہیں۔ اپریل میں ان کے مالک مکان نے بھی انہیں بیدخل کرنے کا نوٹس دے رکھا ہے۔ انہوں نے کہا، ’اگر میرے پاس پیسے ہوں تو میں دوبارہ اسمگل ہو کر واپس درعا جانا چاہوں گا۔‘

رپورٹ: حماد کیانی / خبر رساں ادارے

ادارت: امجد علی