سپریم کورٹ کا فیصلہ: آئین کی برتری یا پارلیمنٹ پر قدغن
11 اگست 2023چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جمعے کے روز پارلیمان سے منظور کردہ اس ایکٹ کو کالعدم قرار دے دیا، جس کے تحت ازخود نوٹس کے مقدمات میں عدالتی فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا تھا۔
ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز نامی یہ ایکٹ رواں برس مئی میں منظور کیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت ازخود نوٹس کے ایسے متاثرین کو بھی فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا تھا، جن کے خلاف اس قانون کے نفاز سے پہلے فیصلہ سنایا گیا ہو تاہم ایسے افراد کواس قانون کے نافذ ہونے کے بعد 60 دن کے اندر اپیل دائر کرنا تھی۔
بعض قانونی ماہرین کی رائے میں تازہ عدالتی فیصلے کے بعد سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نون کے رہنما نواز شریف کے لیے قانونی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، جس سے ان کی لندن سے وطن واپسی اور سیاست بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
فیصلے کے مندرجات
تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ ایک سادہ قانون کے ذریعے سپریم کورٹ، اس کے اختیارات اور اس کی حدود میں مداخلت آئین کی غلط تشریح ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین میں کہیں یہ واضح اختیار پارلیمنٹ کو نہیں دیا گیاکہ وہ سپریم کورٹ کی نظر ثانی کی حدود میں مداخلت کرے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ یہ نیا ایکٹ اپیل کے ایک نئے طریقہ کار کی بات کرتا ہے، جس کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ کہ نظر ثانی کے حوالے سے عدالتی اختیارات کو وسعت دیتے ہوئے اپیلٹ اتھارٹی قائم کرنے کے لیے ایک آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔
اختیارات پر قدغن
ناقدین کی رائے میں اعلٰی عدلیہ کی طرف سے یہ فیصلہ پارلیمان کے اختیار کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ معروف سیاستدان اور سابق سینٹر افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ نے گزشتہ کچھ دنوں میں جمہوری اصولوں کو نظر انداز کر کے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا اور اب عدالت نے بھی پارلیمنٹ کے اختیار پر قدغن لگائی ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سپریم کورٹ میں جسٹس بندیال کا دھڑا، جو سیاست زدہ ہے، وہ مقننہ کے اختیار پر غلط طریقے سے قدغن لگا کر مزید بے نقاب ہو گیا ہے۔‘‘ افراسیاب خٹک کے مطابق اس طرح کے اقدامات ریاستی ناکامی کے راستے کی طرف جاتے ہیں۔
آئین کی برتری
تاہم وکلا برادری کے بعض ارکان کا کہنا ہے کہ عدالت نے مقننہ کی کوئی بے توقیری نہیں کی بلکہ اس نے آئین کی برتری کو ثابت کیا ہے۔ لاہور میں مقیم ایک وکیل ماریہ فاروق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' یہ تاثر غلط ہے کہ اس فیصلے سے پارلیمنٹ کے اختیار پر کوئی قدغن لگی ہے بلکہ دراصل اس فیصلے نے آئین کی برتری کو قائم کیا ہے، جس کا کام ریاست کے تینوں اداروں پر نظر رکھنا ہے۔‘‘
ماریہ فاروق کے مطابق مقننہ قانون سازی کر سکتی ہے لیکن وہ ایک سادہ قانون کے ذریعے آئین کو تبدیل نہیں کر سکتی جیسا کہ اس ایکٹ میں کیا گیا تھا۔
نواز شریف کے لئے مشکلات
گو کہ پاکستان مسلم لیگ نواز یہ تاثر دے رہی ہے کہ اس فیصلے کی وجہ سے نواز شریف کی واپسی میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوگا اور نہ ان کی طرز سیاست کے لیے کوئی مسئلہ ہوگا۔ تاہم کچھ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ کیونکہ نواز شریف نے تاحیات نا اہلی کو ختم نہیں کرایا تھا، اس لیے ان کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
فوجداری مقدمات کے ایک ماہر وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ جب نواز شریف کے خلاف تاحیات نااہلی کا فیصلہ آیا تھا، تو اس وقت انہیں اپیل میں جانا چاہییے تھا۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ سپریم کورٹ کے اس وقت کے ججوں کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 184 تھری کے خلاف صرف نظر ثانی کی درخواست دی جا سکتی ہے، اپیل کی درخواست نہیں دی جا سکتی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، '' نواز شریف کی قانونی ٹیم کو اس وقت یہ نقطہ اٹھانا چاہیے تھا کہ نظر ثانی کا معاملہ صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی فیصلہ نچلی عدالتوں سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ میں آ رہا ہو۔ نواز شریف کے کیس میں تو خود سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے طور پر کردار ادا کیا، تو اس میں اپیل کا حق کیسے نہیں دیا جا سکتا، جو آئینی اور اسلامی حق ہے۔‘‘
قانونی رکاوٹیں
انعام الرحیم کے خیال میں اب نواز شریف کو فوراﹰ تاحیات نااہلی کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنا چاہییے،''ورنہ ان کے لیے مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اور کل کوئی بھی شخص الیکشن کمیشن آف پاکستان، ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سے رجوع کر کے یہ کہہ سکتا ہے کہ نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا تھا، تو وہ کس طرح انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔‘‘
تاہم اس وکیل کے بقول نواز شریف اپنی اپیل میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ انتخابات میں حصہ لینا ان کا بنیادی حق ہے جو تاحیات نااہلی کے فیصلے کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔ انعام الرحیم کے مطابق فیصل وواڈا کے مقدمے میں عدالت بھی یہ کہہ چکی ہے کہ کسی کو تاحیات نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔
سوالات اٹھیں گے
اس ایکٹ کی پارلیمان سے منظوری کے بعد مسلم لیگ کے حامیوں کو یقین ہو چلا تھا کہ یہ نواز شریف کے لئے آسانیاں پیدا کر ے گا لیکن اب صورت حال بدل گئی ہے۔ اس ضمن میں ایڈووکیٹ فیصل چوہدری کا کہنا ہے کہ نظر ثانی اپیل کے خلاف عدالتی فیصلے کے بعد کئی سوالات اٹھیں گے۔ '' نواز شریف کا خیال تھا کہ وہ آئیں گے، پھر ایک لارجر بینچ بنے گا، جو کہ ان کی تا حیات نااہلی کو غیر قانونی قرار دے دے گا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تا حیات نا اہلی جوآرٹیکل 62 ون ایف کے تحت دی گئی وہ آئینی تھی، کیا اس کو اس طرح کی قانون سازی سے ختم کیا جا سکتا ہے۔‘‘
مسلم لیگ ن کے حامیوں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا نواز شریف کی وطن واپسی یا ان کی سیات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس کی وجہ وہ دو ہزار ستر ہ میں پارلیمنٹ سے منظور کیے گئے الیکشن کمیشن ایکٹ کو قرار دیتے ہیں۔
اس ترمیمی قانون کے تحت کسی بھی رکن قومی اسمبلی کی نااہلی کی سزا زیادہ سے زیادہ پانچ سال مقرر کر دی گئی تھی جبکہ ترمیم سے پہلے الیکشن ایکٹ میں آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا تھا۔
تاہم فیصل چوہدری کے مطابق یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں اور اس کے لیے بھی قانون اور آئین کی تشریح کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، ''اگر الیکشن ایکٹ ترمیمی قانون کا فائدہ نواز شریف کو دیا جا سکتا ہے، تو آئین کی شقوں باسٹھ اور تریسٹھ کے تحت اس تا حیات نااہلی کا کیا ہوگا، جس کی تشریح سپریم کورٹ کے ہی ایک سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کر چکے ہیں۔‘‘
فیصل چوہدری کے مطابق اگر کوئی الیکشن ایکٹ میں ترمیم کو چیلنج کر دیتا ہے تو یہ معاملہ ایک بار پھر عدالت کے سامنے ہو گا اور وہی ایک بار پھر اس کی تشریح کر سکتی ہے۔