1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب گوادر میں آئل ریفائنری بنائے گا، پاکستانی وزیر

4 اکتوبر 2018

سعودی عرب ایرانی سرحد کے قریب ایک آئل ریفائنری تعمیر کرے گا۔ پاکستانی حکام کی جانب سے یہ اعلان ان تحفظات کے درمیان سامنے آیا ہے کہ اس طرح کی کوئی پیشرفت سعودی عرب اور ایران کے دمیان نئے تنازعے کا سبب بن سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/35zWr
Jemen Jamatud Dawa
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Akber

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق پاکستانی وزیر پٹرولیم سرور خان نے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ کے قریب ایک آئل ریفائنری تعمیر کرے گا۔

سرور خان کے مطابق سعودی وزارت توانائی کے ایک وفد کی طرف سے رواں ہفتے گوادر کے دورے کے بعد پاکستانی کابینہ نے اس منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ پاکستانی وزیر پٹرولیم کے مطابق اس ریفائنری کی تیل صاف کرنے کی صلاحیت اور اس منصوبے پر اٹھنے والے اخراجات کے تخمینے پر بات چیت ہونا ابھی باقی ہے۔ تاہم پاکستان کے مقامی میڈیا کے مطابق اس منصوبے پر قریب آٹھ بلین امریکی ڈالرز کے برابر لاگت آئے گی۔

رواں ماہ اگست میں اقتدار سنبھالنے والی پاکستان کی نئی حکومت ملک میں معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے اس بات کی خواہاں ہے کہ سعودی عرب پاکستان میں سرمایہ کاری کر کے اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد دے۔

Projekt Wirtschaftskorridor Pakistan-China
گوادر کی بندرگاہ چین کے قریب 62 بلین ڈالرز کے اس منصوبے کا حصہ ہے جس کے ذریعے چین پاکستان کے راستے مشرق وُسطیٰ، یورپ اور افریقی مارکیٹس کے ساتھ زمینی اور سمندری رابطے استوار کرنا چاہتا ہے۔تصویر: picture-alliance/Photoshot/L. Tian

مبصرین کا خیال ہے کہ ایرانی سرحد سے متصل پاکستانی صوبہ بلوچستان میں اس طرح کی سعودی سرمایہ کاری ایران اور سعودی عرب کے درمیان نئے تنازعے کا سبب بن سکتی ہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک سکیورٹی تجزیہ کار فدا خان نے ڈی پی اے کو بتایا، ’’یہ قدرتی سی بات ہے کہ ایرانی سعودیوں کو اپنے گھر کے پچھلے حصے میں دیکھ کر اچھا محسوس نہیں کریں گے۔‘‘

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین بھی اس پیشرفت سے خوش نہیں ہو گا۔ گوادر کی بندرگاہ چین کی مدد سے تعمیر کی گئی ہے۔ یہ بندرگاہ چین کے قریب 62 بلین ڈالرز کے اس منصوبے کا حصہ ہے جس کے ذریعے چین پاکستان کے راستے مشرق وُسطیٰ، یورپ اور افریقی مارکیٹس کے ساتھ زمینی اور سمندری رابطے استوار کرنا چاہتا ہے۔

سیاسی اور دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی حلیف ملک سعودی عرب کی طرف سے ایک ایسے منصوبے میں سرمایہ کاری جس کا آغاز چین نے کیا تھا، چینیوں کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نامی تھنک ٹینک سے تعلق رکھنے والے عرفان شہزاد کے مطابق، ’’یہ ایک خطرناک قدم ہے۔۔۔ چینی اس سے نا خوش ہو سکتے ہیں۔‘‘

Karte Iran Chabahar DEU
مبصرین کا خیال ہے کہ ایرانی سرحد سے متصل پاکستانی صوبہ بلوچستان میں اس طرح کی سعودی سرمایہ کاری ایران اور سعودی عرب کے درمیان نئے تنازعے کا سبب بن سکتی ہے۔

پاکستان کی نئی حکومت قبل ازیں ایسے تحفظات کا اظہار کر چکی ہے کہ چین کے ساتھ سرمایہ کاری کا یہ منصوبہ جو سابق حکومت کی طرف سے شروع کیا گیا تھا، پاکستان کو قرضوں کے بوجھ تلے دبانے کا سبب بن سکتا ہے۔

 

ا ب ا / ص ح (ڈی پی اے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید