1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سرینا فائز عیسی کا صدر کو خط

عبدالستار، اسلام آباد
4 نومبر 2020

سپریم کورٹ کے جج جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ سرینا کی طرف سے صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خط کے بعد ملک میں سکیورٹی اداروں کے کردار پر بحث زور پکڑ رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3ksCt
Qazi Faez Isa
تصویر: Supreme Court of Pakistan

انگریزی روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق سرینا نے منگل کو یہ خط صدر مملکت کو لکھا ہے، جس میں دیگر کئی باتوں کے علاوہ یہ سوال بھی کیا گیا ہے کہ ایک جج کس طرح قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہو سکتا ہے۔

’پاکستانی سیاسی سیب اور عسکری مالٹے‘

جسٹس فائز عیسیٰ کو مبینہ دھکمیاں: کئی حلقوں ميں تشویش

ان کا مزید پوچھنا تھا کہ دوہزار سولہ کے کوئٹہ دھماکے کے بعد بننے والے کمیشن کی سفارشات پر عمل کیوں نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا اگر کمیشن کی سفارشات پر عمل کیا جاتا تو پشاور میں مارے جانے والے بچے آج  زندہ ہوتے۔ 

انہوں نے خط میں سپریم کورٹ کے کچھ ججوں کے رویوں کا بھی تذکرہ کیا۔ خط میں شکایت کی گئی کہ وہ اور ان کے خاوند کو سکیورٹی دستے مہیا نہیں۔

"لیکن جو پراکسیز یا چوری چھپے کام کرتے ہیں، انہیں یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ اگر ہمیں کوئی نقصان پہنچا، تو پھر آپ کے نام ایف اے ٹی ایف، یو این اور انٹرپول کو بھیجیں جائیں گے۔"

خط سے یہ واضح نہیں کہ وہ کس کی نشاندہی کی رہی ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کے نشانے پر

پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان قاضی فائز عیسی کے خلاف ذاتی عناد دکھا رہے ہیں جب کہ عسکری حلقوں نے بھی معزز جج کو نشانے پر رکھا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ قاضی فائز عیسی کا اصل جرم فیض آباد دھرنے کیس کا فیصلہ ہے جس میں انٹیلیجنس اداروں پر تنقید کے بعد عسکری حلقے ان کے خلاف ہوگئے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق جس وقت انہوں نے یہ فیصلہ دیا تھا، کچھ طاقتور افراد نے انہیں اسی وقت ہٹانے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔

اپوزیشن رہنماؤں کے مطابق ملک کو اس وقت ایسے ججوں کی ضرورت ہے، جو آئین کی حکمرانی دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ان کے بقول حکومت کو ہر وہ شخص نا پسند ہے، جو آئین کی بالا دستی کی بات کرتا ہے۔

ایک سیاسی رہنما کے مطابق قاضی فائز عیسی کی اہلیہ سرینا خود بتا چکی ہیں کہ انہیں دھمکیاں مل رہی ہیں۔ "انہوں نے سب کو اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا بتایا۔ ایف بی آر کو بھی جواب دیا۔ لیکن کوئی ان کی سننے والا نہیں۔ کیا المیہ ہے کہ ایک اعلیٰ جج کی اہلیہ انصاف مانگ رہی ہے اور کوئی ان کی نہیں سن رہا۔ جب کوئی نہیں سنے گا تو وہ خط لکھیں گی تاکہ عوام کو پتہ چل سکے کہ اس ملک میں ہو کیا رہا ہے۔"

یہ کوئی طریقہ نہیں

 تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسحاق خاکوانی کا کہنا ہے کہ جس طرح قاضی فائز عیسی اور ان کی اہلیہ یہ معاملہ طے کر رہے ہیں، اس سے ان کی اخلاقی پوزیشن کمزور ہورہی ہے۔

"دوسرے معاملات کو بعد میں دیکھا جا سکتا ہے پہلے فاضل جج اور ان کی اہلیہ مالی الزامات کا جواب دیں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ الزام کس نے لگایا اور اس کو آئی ایس آئی یا کسی اور کی حمایت حاصل ہے یا نہیں۔ یہ کیا طریقہ ہے کہ اگر آپ پر الزامات لگیں تو آپ ان کا جواب دینے کے بجائے وزیر اعظم اور دوسرے لوگوں کے اثاثوں کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیں۔ یہ کوئی طریقہ نہیں۔"

خط قابل مذمت ہے

رٹائرڈ فوجی کمانڈر امجد شعیب  بھی اس موقف کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فائز عیسی اب ایک سیاسی جج کے طور پر سامنے آئے  ہیں۔"جو خط بھیجا گیا ہے وہ انتہائی قابل مذمت ہے، اس پر ہر پاکستانی کو افسوس ہے۔ اداروں کا نام لینا اور ایف اے ٹی ایف کا تذکرہ کرنے کا کیا جوازہے؟ ہمارے ہاں روایت چل پڑی ہے کہ آپ کا احتساب ہو تو آپ ملک کے بارے میں نہ سوچیں اور اس کو بدنام کرنا شروع کر دیں۔ اس کے اداروں پر کیچڑ اچھالیں۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے، جو ملک کو تباہی کی طرف لے کر جا سکتا ہے۔"

فاصلے اور بڑھیں گے

 لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر حبیب اکرم کا بھی خیال ہے کہ یہ خط نامناسب ہے اور اس سے جی ایچ کیو اور قاضی فائز عسیی کے درمیان فاصلے مذید بڑھیں گے۔

"لازمی بات ہے اسٹیبلشمنٹ ایف اے ٹی ایف کے مسئلے پر بہت حساس ہے۔اسی طرح اس خط میں پراکسیز کا تذکرہ بھی اسٹیبلشمنٹ کو ناگوار گذرے گا۔میرے خیال میں اس خط سے مقتدر حلقوں اور قاضی فائز عیسی کے درمیان بد اعتمادی مزید بڑھے گی۔" 

ان کا کہنا تھا کہ اس خط کو پاکستان دشمن عناصر استعمال کرسکتے ہیں، جس سے ملک کو فائدہ نہیں ہوگا۔

حکومتی بدنیتی ثابت ہو چکی ہے

سپریم کورٹ بار کونسل کے صدر لطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ سرینا فائز عیسی نے کوئی غیر مناسب بات نہیں لکھی۔ جو ایسا کہتے ہیں انہیں صدر پاکستان عارف علوی سے استعفی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ "سپریم کورٹ اس ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دے چکی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ صدر اور ان کا آفس اس بدنیتی کا حصہ تھا۔ لہذا انہیں اپنے عہدے سے استعفی دے دینا چاہیے کیونکہ یہ بدنیتی سپریم کورٹ کے فیصلے سے ثابت ہوچکی ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں اگر سرینا ایف اے ٹی ایف یا یو این کو خط لکھتی ہیں تو یہ کوئی نا مناسب بات نہیں ہے۔ "اگر ان کی فیملی کی جانوں کو خطرہ ہے تو وہ کیوں نا کوشش کریں دنیا کو بتانے کی کہ یہ خطرہ کہاں سے آرہا ہے؟ اسی طرح پراکسیز والی بات بھی غلط نہیں ہے۔ ہم قاضی فائز عیسی کے ساتھ ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہیں فیض آباد دھرنے کے کیس کی سزا دی جارہی۔"