1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری لنکا کا ایک جزیرہ بھارت میں سیاسی تنازعے کا سبب کیوں ہے؟

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
3 اپریل 2024

بھارتی ریاست تمل ناڈو سے کچھ فاصلے پر ہی واقع کچاتھیو نامی ایک چھوٹا سا غیر آباد جزیرہ سری لنکا کا حصہ ہے۔ تاہم عام انتخابات سے عین قبل نریندر مودی کے ایک بیان سے اس پر سیاسی جماعتوں کے درمیان تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4eNEE
علامتی تصویر
تصویر: LUIS ROBAYO/AFP via Getty Images

کچاتھیو نامی جزیرہ ایک پٹی کی شکل میں صرف 1.9 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، جو آبنائے پالک میں واقع ہے۔ سمندر کا یہ چھوٹا سا حصہ بھارت اور سری لنکا کو تقسیم کرتا ہے۔ یہ شمال مغرب میں بھارتی ریاست تامل ناڈو کے رامیشورم شہر اور سری لنکا کے جافنا شہر کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔

کیا بھارت سری لنکا کے معاشی مسائل حل کرنے کی سکت رکھتا ہے؟

اس جزیرے پر پینے کے پانی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اور اس پر واحد عمارت بس ایک چرچ ہے، جو سال بھر میں ایک تہوار کے دوران کھلتا ہے، جس میں بھارت اور سری لنکا کے عقیدت مند آتے ہیں۔

بھارتی اور امریکی خدشات کے باوجود چینی ’جاسوس جہاز‘ سری لنکا میں

سن 1921 کے بعد سے ہی بھارت اور سری لنکا کے درمیان کچاتھیو کے آس پاس کے پانیوں میں ماہی گیری کے حقوق کے حوالے سے تنازعہ تھا اور دونوں اس پر دعویٰ کرتے تھے۔ لیکن سن 1974 میں بھارت نے جزیرے پر اپنا دعویٰ ترک کر کے تنازعے کو ختم کر دیا۔

بھارتی امداد کوئی ’خیرات‘ نہیں ہے، سری لنکن وزیر اعظم

اس کے دو برس بعد بھارت اور سری لنکا نے ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت دونوں ممالک کے لوگوں کو ایک دوسرے کے پانیوں میں مچھلیاں پکڑنے سے روک دیا گیا۔

تنازعہ سرخیوں میں کیوں ہے؟

اب یہی دہائیوں پرانا فیصلہ ایک بار پھر سے بھارت میں بحث کا موضوع ہے، جس کی وجہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا ایک متنازعہ بیان ہے۔ ایک انتخابی ریلی سے خطاب کے دوران مودی نے حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پر الزام لگایا کہ اس نے اس جزیرے کو بڑی ''بے دردی سے'' سری لنکا کے حوالے کر دیا۔

اقتصادی بحران سے پریشان سری لنکا کے تامل افراد بھارت میں پناہ لے رہے ہیں

 تاہم کانگریس نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے مسٹر مودی پر الزام لگایا کہ وہ 'مایوسی'  کی وجہ سے انتخابات سے قبل اس طرح کے بے سود معاملے کو چھیڑ رہے ہیں۔

بھارت پر سری لنکا کے معاشی بحران کے مضمرات

لیکن اپوزیشن لیڈروں کا کہنا ہے کہ چونکہ ریاست تمل ناڈو میں کچاتھیو ایک حساس مسئلہ ہے، اس لیے بی جے پی ووٹ حاصل کرنے کے لیے اسے ایک تنازعہ میں بدلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ چونکہ اس ریاست میں بی جے پی کافی کمزور ہے، اس لیے وہ اپنی جگہ بنانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔

تمل ناڈو میں عام انتخابات کے پہلے مرحلے میں 19 اپریل کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی
وزیر اعظم نریندر مودی کی پوسٹ کے بعد سے بی جے پی کے متعدد رہنما اور وفاقی وزراء بھی اس حوالے سے کانگریس پر تنقید کرتے رہے ہیں، البتہ کانگریس اسے بی جے پی کی سیاسی بوکھلاہٹ قرار دیتی ہےتصویر: Altaf Qadri/AP Photo/picture alliance

یہ تنازع گزشتہ اتوار کے روز اس وقت شروع ہوا، جب نریندر مودی نے اس جزیرے پر ایک بھارتی اخبار کے مضمون کو سوشل میڈیا ایکس پر شیئر کیا اور لکھا، ''آنکھیں کھولنے والے اور حیران کن نئے حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح کانگریس نے کچاتھیو کو بے دردی سے چھوڑ دیا۔''

سری لنکا میں اقتدار دوبارہ راجاپاکسے خاندان کی گرفت میں؟

یہ مضمون تامل ناڈو میں بی جے پی کے سربراہ کے اناملائی کے ذریعہ حاصل کردہ دستاویزات پر مبنی تھا۔ دستاویزات میں اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے حوالہ سے کہا گیا تھا کہ انہوں نے ''کچاتھیو کو کوئی اہمیت نہیں دی'' اور یہ کہ وہ ''اس پر (بھارت کے) دعووں کو ترک کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔''

اس مضمون کے مطابق تاہم وزارت خارجہ کے کچھ عہدیداروں اور دیگر ماہرین کا کہنا تھا کہ بھارت پاس کچاتھیو پر دعویٰ کرنے کے لیے ایک ''اچھا قانونی کیس'' تھا۔

کیا بھارت یہ جزیرہ دوبارہ حاصل کر سکتا ہے؟

واضح رہے کہ سن 1974 میں جب نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی وزیر اعظم تھیں، اس وقت بھارتی حکومت نے سری لنکا کے ساتھ جزیرے کے تنازعے کو پوری طرح سے ختم کر دیا تھا۔

اس کے بعد سے ریاست تمل ناڈو کی سیاسی جماعتیں باقاعدگی سے کچاتھیو کا مسئلہ اٹھاتی رہی ہیں اور سری لنکا کے ساتھ معاہدے کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت میں مقدمات بھی دائر کیے۔

سری لنکا کے حکام اکثر تمل ناڈو کے ماہی گیروں کو اس وقت گرفتار بھی کرتے رہتے ہیں، جب وہ ان کے ملک کے پانیوں میں داخل ہوتے

 ہیں۔ اس میں کچاتھیوو کے آس پاس کی گرفتاریاں بھی شامل ہیں، اسی لیے یہ مسئلہ اکثر وہاں سرخیوں میں بھی رہتا ہے۔

ایکس پر نریندر مودی کی پوسٹ کے بعد سے بی جے پی کے متعدد رہنما اور وفاقی وزراء بھی اس حوالے سے کانگریس پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ البتہ کانگریس اسے بی جے پی سیاسی بوکھلاہٹ قرار دیتی ہے۔

بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا بھارت نے سری لنکا کے ساتھ سن 1974 کے معاہدے پر نظرثانی کا کوئی منصوبہ تیار کیا ہے، تو انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے۔

سن 2013 میں بھارتی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ وہ سری لنکا سے کچاتھیو کو ''واپس'' نہیں لے سکتی کیونکہ ''بھارت سے تعلق رکھنے والا کوئی علاقہ نہیں دیا گیا اور نہ ہی خودمختاری سے دستبردار ہوا گیا کیونکہ یہ علاقہ متنازعہ تھا اور اس کی کبھی حد بندی نہیں کی گئی تھی۔''

اس کے ایک برس بعد مودی کی حکومت کی نمائندگی کرنے والے سابق اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے عدالت کو بتایا تھا کہ اگر بھارت کچاتھیوو چاہتا ہے، تو اسے حاصل کرنے کے لیے ''جنگ میں جانا پڑے گا۔''

تاہم انامالائی نے صحافیوں کو بتایا کہ وفاقی حکومت تمل ناڈو کے ماہی گیروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کچاتھیو کو ''واپس لانے'' کی کوشش کر رہی ہے۔

ادھر سری لنکا کے ایک وزیر نے بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کو بتایا ہے کہ کچاتھیو پر کنٹرول کے بارے میں بھارت کی جانب سے سری لنکا کے ساتھ  ''سرکاری سطح پر کوئی رابطہ'' نہیں ہوا ہے۔

مودی کے بھارت میں شاہ جہاں کا عرس خطرے میں