1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقتصادی بحران سے پریشان سری لنکا کے تامل افراد کی بھارت ہجرت

25 مئی 2022

سری لنکا کی تامل آبادی ملک کے بقیہ باشندوں کے مقابلے میں اقتصادی بحران سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ سیاسی و معاشی عدم استحکام نے سری لنکا میں بظاہر زندگی کے ہر طبقے کو متاثر کر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4BrRk
Sri Lanka Tamilen Thai Pongal
تصویر: Pushpa Kumara/AA/picture alliance

 سری لنکا کے درجنوں غریب خاندان ملکی معاشی بحران سے پیدا مشکل حالات کی وجہ راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے جنوبی بھارت پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ بحرِ ہند کی جزیرہ ریاست تقریبا دیوالیہ ہو چکی ہے اور اس وقت سیاسی و اقتصادی عدم استحکام کی گرفت میں ہے۔

سری لنکا میں پٹرول ختم ہو گیا، وزیراعظم

بائیس ملین کی آبادی والے ملک میں عوام کو ضروریاتِ زندگی کی بنیادی اشیاء کی شدید طلب ہے۔ ان ضروری اشیاء میں خوراک، ادویات اور پیٹرول خاص طور پر نمایاں ہیں۔ سری لنکا کے زرِ مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں۔

Sri Lanka | Wirtschaftskrise
بائیس ملین کی آبادی والے ملک میں عوام کو ضروریاتِ زندگی کی بنیادی اشیاء کی شدید طلب ہےتصویر: Dinuka Liyanawatte/REUTERS

اس گھمبیر صورت حال میں حکومت کو عوامی غضب کا سامنا ہے اور ان کے بڑے بڑے احتجاجی مظاہروں نے سیاسی اُتھل پُتھل کو شدت دے رکھی ہے۔ وزیر اعظم کے منصب سے مہندا راجا پاکسے اور ان کی کابینہ کے مستعفی ہونے کے بعد نئے وزیر اعظم کی تعیناتی نے بھی عوامی غصے میں کمی نہیں پیدا کی اور حالات خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔

انتہائی زیادہ مہنگائی

بھارت پہنچنے والی سری لنکا کی اکتالیس سالہ رانی (نام تبدیل کر دیا گیا ہے) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انتہائی مشکل حالات میں خاندان کے آٹھ افراد جن میں چھوٹے بچے بھی شامل ہیں، کا گزارا ناممکن ہو گیا تھا اور سب لوگ ایک کشتی کے ذریعے بھارت پہنچ گئے ہیں۔ اس خاندان نے اپنی تھوڑی سی زمین فروخت کر کے کشتی کرائے پر لی تھی۔ ان کے ہمراہ ایک اور خاندان کے چار افراد بھی شامل ہیں۔

رانی کے مطابق اس وقت سری لنکا میں ایک کلو چاول کی قیمت ڈھائی سو سری لنکن روپے ہو چکی ہے اور اتنے بڑے خاندان کو ایک دن کھانا کھلانے پر پانچ سو روپے سے زائد خرچ کرنا پڑتے تھے۔ ان کے ایک بیٹے کو تھیلیسیمیا کا مرض لاحق ہے اور اس کی زندگی کے لیے بہتر خوراک اشد ضروری ہے اور بقیہ بچوں کی زندگی کے لیے بھارت ہجرت کرنا مجبوری تھا۔

سری لنکا: تخريب کاروں کو ديکھتے ہی گولی مارنے کا حکم

تامل کمیونٹی اقتصادی بحران سے شدید متاثر ہو کر بھارت کی جنوبی ریاست تامل ناڈو پہنچ رہی ہے۔ اب تک ریاستی حکام نے اٹھائیس خاندانوں سے تعلق رکھنے والے پچاسی افراد کا مہاجر کے طور پر دفتر میں اندراج کیا ہے۔ یہ تمام خاندان تامل کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔

LTTE Fahne Tamilische Rebellen Berlin
سری لنکا میں تامل علیحدگی پسندوں کی خانہ جنگی میں ایک لاکھ کے قریب انسان ہلاک ہوئے تھے۔ یہ خانہ جنگی سن 2009 میں ختم ہوئی تھیتصویر: AP

سری لنکا کی تامل اقلیت

سری لنکا کی مجموعی آبادی میں تامل اقلیت کا تناسب بارہ فیصد ہے اور یہ ملک کی سب بڑی نسلی اقلیت ہے۔ یہ کمیونٹی ابھی بھی سن 2009 میں ختم ہونے والی شدید خانہ جنگی کے اثرات سے باہر آنے کی کوششوں میں ہے کیونکہ مصالحتی عمل آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ اس خانہ جنگی میں ایک لاکھ کے قریب انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔

انٹرنیشنل ریفیوجی قانون کے ماہر سورج گرج شنکر کا کہنا ہے کہ سری لنکا کے اقتصادی اور سیاسی بحران سے زندگی کا ہر طبقہ متاثر ہو چکا ہے لیکن اقلیتی گروپوں کو اس کی شدت کا زیادہ سامنا ہے اور اس میں خاص طور پر تامل شامل ہیں کیونکہ یہ نظرانداز کیا گیا طبقہ ہے۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ سری لنکا کی اکثریتی آبادی سنہالی کو زیادہ رعایتیں حاصل ہیں اور بقیہ نسلی و مذہبی گروپوں کو اقتصادی بحران کے دوران نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

 بھارت کو بہتر مہاجر پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے

بھارتی وزارتِ داخلہ کے مطابق سری لنکن تامل کمیونٹی کے مہاجرین ایک سو آٹھ کیپموں میں مقیم ہیں اور ان کی تعداد اٹھاون ہزار آٹھ سو تینتالیس ہے۔ یہ تمام کیمپس تامل ناڈو میں ہیں۔

Indien  Mandapam Refugee Camp in Rameshwaram
تامل ناڈو میں سری لنکا کے تامل باشندوں کا مہاجر کیمپتصویر: Krithiga Narayanan/DW

دوسری جانب یہ بھی اہم ہے کہ بھارت سن 1951 کے ریفیوجی کنوینشن کا دستخط کنندہ نہیں ہے۔ جو بھی غیر قانونی مہاجر بھارت میں داخل ہوتا ہے، اس کو سن 1946 کے فارنر ایکٹ کے تحت لایا جاتا ہے۔ بھارت میں سیاسی پناہ کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔

سری لنکا میں فسادات، ملکی وزیر اعظم نے استعفیٰ دے دیا

اقوام متحدہ کی ریفیوجی ایجنسی (UNHCR) غیر قانونی افراد کی درخواستوں پر کام مکمل کرتی ہے۔ اگر اقوام متحدہ کی ایجنسی کا غیر مکمل فارم اکثر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔ انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ بھارت کو ایک مناسب اور بہتر ریفیوجی پالیسی متعارف کرانی چاہیے کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔

کارتھیگا نارایانن، تامل ناڈو بھارت (ع ح/ ع ا)