1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سربرینتسا سانحہ، پچیس برس بعد بھی زخم تازہ

11 جولائی 2020

بوسنیا میں آج سربرینتسا سانحے کی پچیسویں برسی منائی جا رہی ہے۔ سرب فورسز نے قریب آٹھ ہزار افراد کو قتل کر دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/3f9zQ
Bosnien und Herzegowina Gedenken an Srebrenica-Massaker
تصویر: Getty Images/D. Sagolj

سربیا کی سرحد کے قریب واقع بوسنیائی قصبے سربرینتسا میں 11 جولائی 1995 پر سرب فورسز نے قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے چند ہی روز کے اندر اندر اس قصبے میں موجود آٹھ ہزار مردوں اور لڑکوں کو قتل کر دیا گیا۔ براعظم یورپ پر دوسری عالمی جنگ کے بعد خونریزی کا یہ سب سے بڑا واقعہ تھا۔ اس قتل عام کا شکار بننے والوں میں سے بعض افراد کی باقیات کو آج اس واقعے کے پچیس برس بعد باقاعدہ طور پر دفن کیا گیا ہے۔ اس موقع پر سربرینتسا میں ایک یادگاری تقریب منعقد کی گئی۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ عام حالات میں اس تقریب میں ہزار ہا افراد شریک ہوتے تاہم کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے انسداد کے لیے اس بار یادگاری تقریبات کو انتہائی محدود بنایا گیا۔

شاعر سے جنگی مجرم تک

بوسنیا قتل عام میں بچ جانے والا آج بھی انسانی ہڈیاں چننے میں مصروف

جرمن وزیرخارجہ ہائیکو ماس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بوسنیا کے قصبے سربرینتسا میں ہونے والے قتل عام جیسے کسی واقعے کو دوبارہ کبھی رونما نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مظالم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی جو کہانی سربرینتسا سناتا ہے، وہ کوئی بھی دوسرا علاقہ نہیں سناتا۔ یہ بات اہم ہے کہ اس قتل عام میں ملوث کئی اہم ملزمان کو عالمی عدالت سے سزائیں مل چکی ہیں۔

اس قتل عام میں ہلاک ہونے اور اجتماعی قبروں میں دفن کر دیے جانے والے افراد میں سے چھ ہزار چھ سو دس افراد کی باقاعدہ تدفین ہو چکی ہے، مگر کئی افراد اب بھی اپنے پیاروں کی باقیات کی تلاش میں ہیں۔

بحرالدین صلاحووِچ کے والد 25 برس قبل اس قتل عام میں مارے گئے تھے تاہم ان کی باقیات کی شناخت ہونے کے بعد گزشتہ روز ان کی رسمی تدفین کی گئی۔ بحرالدین صلاحووِچ اس واقع میں بال بال بچے تھے۔ صلاحووِچ کے والد کی کچھ باقیات گزشتہ نومبر میں ایک اجتماعی قبر سے ملی تھیں اور ڈی این اے کے ذریعے ان کی شناخت کی گئی۔

سن 1995 میں پیش آنے والے اس واقعے ہی کی بنیاد پر اقوام متحدہ کی دو عدالتوں سمیت عالمی سطح پر بوسنیا کی جنگ کو 'نسل کشی‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اس جنگ میں  سرب، کروشین اور بوسنیائی مسلمان تین فریق تھے۔ یوگوسلاویہ کی ٹوٹ پھوٹ کے دوران ان مختلف نسلی گروہوں کے درمیان لڑائی پھوٹ پڑی تھی جب کہ سن 1995 میں امن معاہدے سے قبل اس تنازعے میں مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زائد افراد مارے گئے۔

سربرینتسا قتل عام کے چھبیس برس

اقوام متحدہ کا امن مشن

سربرینتسا اقوام متحدہ کے امن مشن کی جانب سے 'محفوظ علاقوں‘ میں شامل تھا۔ سربرینتسا کے قریب ہی اقوام متحدہ کی جانب سے قائم کردہ ایک حفاطتی مرکز کا انتظام ڈچ فوج کے پاس تھا۔ جب سربرینتسا پر سرب فورسز نے حملہ کیا، تو قریب 25 ہزار بوسنیائی مسلمانوں نے فرار اختیار کر کے اقوام متحدہ کے مرکز میں پناہ لے لی تھی۔ سرب فورسز نے اس حفاظتی مرکز کے ڈچ فوجیوں کو یرغمال بنا لیا اور یہاں قتل عام اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات رونما ہوئے۔ عالمی فوجداری عدالت کی کئی برسوں تک جاری رہنے والی تفتیش کے مطابق اس نسل کشی کی تیاری سرب فورسز پہلے سےکیے ہوئے تھیں۔ بین الاقوامی فوج داری عدالت نے بعد میں اس قتل عام کو 'نسل کشی‘ قرار دیا تھا۔