1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بوسنیا قتل عام: آج بھی انسانی ہڈیاں چننے میں مصروف

افسر اعوان3 جولائی 2015

رمیز نوکچ قریب ہر روز سربرینتسا کے گرد ونواح کے جنگلاتی علاقے میں ایک انتہائی المناک کھوج کے لیے جاتے ہیں اور یہ کھوج ہے، انسانی ہڈیوں کی تلاش۔ اور شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب انہیں کامیابی نہ ملی ہو۔

https://p.dw.com/p/1FsIA
تصویر: picture-alliance/dpa

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹد پریس کے مطابق بوسنیا کی جنگ کے دوران سربرینتسا قتل عام کو 20 برس گزر چکے ہیں مگر آج بھی اس علاقے میں انسانی باقیات کے ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کے اس بدترین قتل عام میں سرب فوجوں نے آٹھ ہزار مسلمان مردوں اور لڑکوں کو قتل کر دیا تھا۔ نسل کشی کا اپنا جُرم چھپانے کے لیے قاتلوں نے قتل عام کا نشانہ بننے والوں کی باقیات کو اجتماعی قبروں میں دفنا دیا یا جنگلاتی علاقے میں چھپا دیا تھا۔

1992ء سے 1995ء تک جاری رہنے والی جنگ میں سرب جنرل راتکو ملادچ کی افواج نے جولائی 1995ء میں مسلم آبادی والے شہر سربرینتسا کا محاصرہ کر لیا۔ سربرینتسا کے تقریباً 15 ہزار مردوں نے پہاڑیوں پر جا کر پناہ لے لی جبکہ بقیہ کوئی 25 ہزار نفوس نے ہالینڈ کے امن دستوں کی نگرانی میں پوٹوکاری کے نواح میں قائم اقوام متحدہ کے کیمپ میں پناہ لے لی۔ تاہم ہالینڈ کے یہ فوجی پناہ گزینوں کی حفاظت نہ کر سکے اور سرب فوج نے وہاں پہنچ کر مردوں اور لڑکوں کو باقی پناہ گزینوں سے الگ کیا اور انہیں بسوں اور ٹرکوں میں بھر کر لے گئے۔ سرب فوج نے محض 11 جولائی کے روز ان میں سے دو ہزار کو ہلاک کر دیا جبکہ بقیہ چھ ہزار کو جنگلات میں تلاش کر کے ہلاک کر دیا گیا۔

بوسنیا کے شمال مشرقی حصے میں اب تک 93 اجتماعی قبروں اور 314 دیگر مقامات سے سات ہزار ایسے افراد کی لاشیں مل چکی ہیں جبکہ ایک ہزار افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔ رمیز نوکچ خوش قسمتی سے اس قتل عام میں بچ گئے تھے تاہم ان کے والد اور ایک چھوٹا بھائی اس بربریت کا شکار ہو گئے۔ نوکچ 1999ء میں جب اپنے آبائی گاؤں کامینیس واپس پہنچے تو انہوں نے اپنے والد اور بھائی کی باقیات کو تلاش کرنے کا سوچا۔ وہ ہر روز ان مقامات پر جاتے، جہاں ہزاروں بوسنیائی مردوں اور لڑکوں کو قتل کیا گیا تھا اور وہاں سے انسانی باقیات تلاش کرتے۔

رمیز نوکچ کی مدد سے اب تک 300 افراد کی شناخت ہو چکی ہے
رمیز نوکچ کی مدد سے اب تک 300 افراد کی شناخت ہو چکی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/F. Demir

انہیں جب بھی کوئی انسانی ہڈیاں ملتیں، وہ انہیں گمشدہ افراد کی تلاش کے کام میں مصروف ’بوسنیا انسٹیٹیوٹ فار مسنگ پرسنز‘ کے حوالے کر دیتے اور وہاں ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے ان باقیات کی شناخت کی جاتی۔ رمیز نوکچ کی مدد سے اب تک 300 افراد کی شناخت ہو چکی ہے۔ تاہم انہیں اپنے والد اور بھائی کی باقیات تلاش کرنے میں ابھی تک کامیابی نہیں مل سکی تھی۔

مگر رواں برس ان کا یہ خواب بالآخر پورا ہو گیا اور ایک اجتماعی قبر سے ملنے والی باقیات میں ان کے والد اور بھائی کی باقیات بھی موجود تھیں۔ نوکچ 11 جولائی کو ان کی باقاعدہ تدفین کریں گے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’یہ اچھا محسوس ہوتا ہے۔ بھلے ان کی مکمل باقیات نہیں مل سکیں مگر میں اب انہیں خود دفن کروں گا اور مجھے معلوم ہو گا کہ ان کی قبر کہاں ہے۔‘‘

نوکچ پھر بھی اپنی تلاش کو ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے خاتمے تک بربریت کا شکار ہونے والے افراد کی باقیات تلاش جاری رکھیں گے تاکہ ان کی طرح بقیہ لوگوں کے لواحقین کو بھی دلی سکون حاصل ہو سکے۔