1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سخت گیر ایرانی سیاستدانوں کے بچوں کی مغرب سے محبت

26 مارچ 2024

ایران میں حکام ایک طرف تو خود کو اسلامی جمہوریہ کے چیمپئن کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن دوسری جانب اس امر کو بھی یقینی بناتے ہیں کہ ان کے بچوں کے پاس ہجرت کے لیے مالی وسائل اور مغربی اداروں کی تعلیم ہو۔

https://p.dw.com/p/4e9GN
Teheran, Iran | Ebrahim Raisi | neu gewählter Präsident
تصویر: Maryam Rahmanian/newsroom/picture alliance

ایران  میں حکام ایک طرف تو خود کو اسلامی جمہوریہ کے چیمپئن کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن دوسری جانب اس امر کو بھی یقینی بناتے ہیں کہ ان کے بچوں کے پاس ہجرت کے لیے مالی  وسائل اور مغربی اداروں کی تعلیم ہو۔

اسحاق قالیباف پانج برسوں سے کینیڈا جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایرانی  پارلیمان کے سربراہ کے 36 سالہ بیٹے 2019 ء سے اس شمالی امریکی ملک میں مستقل رہائش کا اجازت نامہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اس امر کا انکشاف اُن دستاویزات سے ہوا ہے، جو ایک ایرانی نژاد صحافی نے کینیڈا میں اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام کے اثر و رسوخ اور زندگی کے بارے میں اپنی تحقیق کے دوران تلاش کیں۔

 صحافی کامران ملک پور نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا،''میں ایک طویل عرصے سے پاسداران انقلاب یا اسلامی جمہوریہ کے بااثر عہدیداروں سے کینیڈا میں ایرانیوں کی امیگریشن کے بارے میں تحقیق کر رہا ہوں۔ یہ لوگ، جن کے پاس تعلیم اور مالی وسائل موجود ہیں، وہ خاندانی یا کاروباری روابط کی بدولت آزاد زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لیے مغربی ممالک کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔ کینیڈا میں ان کی ایک بڑی کمیونٹی موجود ہے۔‘‘

ایرانی خواتین کے میوزک بینڈ کی شاندار پرفارمنس

اسحاق قالیباف کیس ظاہر کرتا ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوتا ہے۔ انقلابی گارڈ یا پاسداران  انقلاب  کے سابق کمانڈر اور ایرانی پارلیمنٹ کے موجودہ سربراہ باقر قالیباف کے دوسرے صاحبزادے  دارالحکومت تہران کے ایک امیر محلے میں پلے بڑھے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے  بہت سے دوسرے افسران کے بچوں کی طرح انہوں نے بھی ایک نجی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اچھے اسکول سے ریاضیات کی تعلیم حاصل اور گریجویشن مکمل کی جبکہ وہ جیومیٹری میں فیل ہو گئے تھے۔

Iran Teheran Konflikt um Straßennamen - Shajarian
ایران میں سخت گیر سیاستدانوں کی وجہ سے اکثر فنکاروں کے نام پر چلی آ رہی شاہراہوں کے ناموں کو بدل دیا جاتا ہےتصویر: AsreIran

ہائی اسکول سے بالکل اوسط درجے کا سرٹیفیکٹ حاصل کرنے کے باوجود  ایران  کے سابق صدر علی اکبر رفسنجانی کی طرف سے قائم کردہ نجی آزاد یونیورسٹی میں ان کے داخلے کی درخواست منظور ہو گئی۔ کوٹا سسٹم کی مہربانی، جس کی بدولت وہ یونیورسٹی پہنچ گئے۔ انہوں نے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے میں سات سال لگائے جبکہ یہ عام طور سے چار سال میں حاصل کر لی جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ آسٹریلیا چلے گئے۔ وہاں انہوں نے میلبورن یونیورسٹی سے '' زبان کے ایک کورس‘‘ اور مزید تعلیم کے حصول کے لیے تین لاکھ ڈالر ادا کیے۔ اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے دوران انہوں نے دو اپارٹمنٹس بھی خرید لیے۔

کرپشن کے الزامات

 اسحاق قالیباف کے والد خود کو ''اسلامی انقلاب کا سپاہی‘‘ کہتے ہیں۔ باقر قالیباف پاسداران انقلاب کے سابق کمانڈر تھے اور انہوں نے 2003ء میں ملک کے پولیس چیف کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اپنی مدت ملازمت کے دوران انہوں نے طلباء کے احتجاج کو پرتشدد طریقے سے دبا دیا تھا۔ 2005ء  سے 2017 ء تک قالیباف نے تہران کے میئر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

خواتین کی رگبی ٹیم، ایران میں!

  ایرانی صحافیوں کی رپورٹوں کے مطابق ان کے عہدہ صدارت کے دوران بہت سی سرکاری جائیدادیں بہت کم قیمتوں پر فروخت کی گئیں، بعض اوقات مارکیٹ کی قیمتوں سے 50 فیصد تک کم قیمت میں۔ کہا جاتا ہے کہ سرکاری افسران ان خریداروں میں شامل تھے۔

 

Paris | Protest für Frauenrechte in Iran
اسلامیگ جموریہ ایران میں خواتین پر ہونے والے جبر اور ان کے حقوق کی پامالی نے ملک میں ایک بڑی تحریک کو جنم دیا ہےتصویر: Karim Ait Adjedjou/picture alliance/abaca

بشمول قالیباف خاندان، اس کے علاوہ قالیباف نے شہر کے خزانے سے اپنی بیوی کی فاؤنڈیشن کو کافی رقوم ادا کی تھیں۔ ان کے بقول ان کی اہلیہ کی فاؤنڈیشن دیگر کاموں کے علاوہ تنہا ماؤں یا خواتین کی مدد کرتی ہے اور یہ  خواتین تنہا اپنے خاندان کی کفالت کرتی ہیں۔ اس فاؤنڈیشن کی اصل سرگرمیوں کا تعین کرنا مشکل ہے۔

’’مغربی اقدار‘‘ سے نفرت اور خواتین پر جبر

باقر قالیباف 2020 ء سے ایرانی پارلیمنٹ کے صدر ہیں۔ وہ اسلامی جمہوریہ کے دیگر تمام عہدیداروں کی طرح وہ مغرب کے لبرل جمہوری ممالک کی اقدار کو مسترد کرتے ہیں اور ان کی بجائے معاشرے میں اسلامی قوانین و اقدار کو قائم کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔

ان میں شرعی قوانین پر مبنی اصول بھی شامل ہیں، جو خواتین کے اختیارات صلب کرتے ہیں۔ ان قوانین کے مطابق خواتین کو اپنی زندگی کے اہم فیصلے کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے، چاہے وہ تعلیم حاصل کرنے، سفر کرنے، کام کرنے کی اجازت  کا معاملہ ہو یا شادی کا۔ ان تمام امور کی اجازت خواتین کے  مردوں کی طرف سے ملنا ضروری ہوتی ہے۔

یہ خواتین کی آزادی و خودمختاری کا معاملہ ہے

 ریاست یہ بھی فیصلہ کرتی ہے کہ  خواتین  عوامی مقامات پر کیا سکتی ہیں؟ اگر کوئی مزاحمت کی کوشش اور پرامن طریقے سے آزادی کی وکالت کرنے کی کوشش کرے تو اُسے ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان مشکلات کا اظہار حال ہی میں ''عورت، زندگی، آزادی‘‘ کے نعرے کے ساتھ ملک گیر سطح پر شروع ہونے والی احتجاجی تحریک احتجاج سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔

(شبنم فان ہائن) ک م/ ا ا