1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زمان پارک آپریشن: عمران خان کتنی دیر تک بچ سکیں گے؟

15 مارچ 2023

لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے لیے لاہور کے علاقے زمان پارک میں جاری آپریشن جمعرات کی صبح 10 بجے تک روک دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4OimD
Pakistan Lahore | Anhänger von Ex-Premier Imran Khan
تصویر: Tanveer Shahzad/DW

عدالت نے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس عرصے کے دوران (عمران خان کی رہائش گاہ) زمان پارک کے اطراف میں واقع مال روڈ، کینال پل، دھرمپورہ پل اورٹھنڈی سڑک سے 500 میٹر پیچھے رہے ۔ تاہم کئی قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ عمران خان کو جلد یا بدیر عدالتوں میں ضرور پیش ہونا پڑے گا اور وہ اپنی حاضری کو زیادہ دیر تک ٹال نہیں سکیں گے۔

'مجھے گرفتار نہیں، اغوا اور قتل کرنا چاہتے ہیں'، عمران خان

پاکستانی پولیس کی سابق وزیر اعظم عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش

بدھ کے روز زمان پارک میں پی ٹی آئی کارکنوں کی پولیس اور رینجرز کے ساتھ ہونے والی شدید جھڑپوں کے بعد لاہور ہائیکورٹ میں عمران خان کی گرفتاری کے لیے شروع کیے جانے والے ''زمان پارک آپریشن‘‘  کے خلاف دائر درخواست کی سماعت جسٹس طارق سلیم نے کی۔ اس سماعت کے دوران شاہ محمود قریشی نے عدالت عالیہ کے روبرو کہا کہ اگر لاہور کی انتظامیہ گرفتاریاں بند کردیے تو اس سے حالات درست ہو جائیں گے۔

اس موقعے پر آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے عدالت کو بتایا کہ پیٹرول بم سے ہماری گاڑیاں جلادی گئیں، رینجرز کی گاڑیوں پر پیٹرول گرایا گیا، ساری گرین بیلٹ خراب کردی گئی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے خرابی کی ہے انہیں پکڑنا ہے۔ اس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ وہ گرفتاریاں نہیں روک سکتے۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ شہر میں امن ہونا چاہیے،شہر میں پی ایس ایل بھی ہو رہا ہے۔ اس لے عارضی طور پر پولیس اپنا آپریشن روک دے۔ ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی توشہ خانہ کیس کے حوالے سے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری برقرار رکھتے ہوئے درخواست نمٹا دی ہے۔

دوسری جانب لاہور میں زمان پارک کا علاقہ پاکستان کی موجودہ سیاست کا ایک اہم مرکز بنا ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں سمیت ملک بھر سےپی ٹی آئی کے کارکن یہاں پہنچ رہے ہیں۔ پنجاب پولیس اور رینجرز کے جوانوں نے بدھ کی صبح عمران خان کو گرفتار کرنے کی متعدد کوششیں کیں لیکن کارکنوں کی مزاحمت کی وجہ سے وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ عمران خان کے گھر کی بیرونی دیوار پر بیٹھے ہوئے لاہور صدر کےعلاقے سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان اکرام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صبح ہونے والا حملہ بہت شدید تھا اور پولیس اور رینجرز کے اہلکار گھر کے مرکزی دروازے تک بھی پہنچ گئے تھے۔ لیکن انہیں پوری طاقت سے جواب دیا گیا،''میرے کندھے میں درد تو شروع ہو گیا تھا لیکن میں نے ٹوٹی ہوئی اینٹوں کا پتھراؤ ایک منٹ کے لیے بھی نہیں رکنے دیا۔‘‘

لاہور میں ہونے والے پی ایس ایل کے ایک اہم میچ کی وجہ سے پولیس کو دوپہر کے اوقات میں زمان پارک سے پیچھے ہٹا لیا گیا تھا۔ اس وقت بھی زمان پارک کو جانے والے متعدد راستے بند عام ٹریفک کے لیے بند ہیں۔ اس علاقے میں موجود تمام تعلیمی ادارے بھی بند کیے جا چکے ہیں۔

اس وقت زمان پارک کے آس پاس کا علاقہ تباہی و بربادی کا منظر پیش کر رہا ہے، جگہ جگہ نذر آتش کی جانے والی گاڑیاں، موٹرسائیکلیں واٹر ٹینکر وغیرہ جلے ہوئے ملبے کی صورت میں دکھائی دے رہے ہیں۔ کینال روڈ پر جلائے گئے درختوں کا ملبہ بھی موجود ہے۔

زمان پارک میں اس وقت کوئی دو ہزار کے قریب پی ٹی آئی کے کارکن موجود ہیں۔ انہوں نے عمران خان کے گھر کے بیرونی دروازے کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے رکھا ہے، زمان پارک کی گلیوں میں ترانے گونج رہے ہیں اور تکبیر کے نعرے سنائے دے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ڈنڈا بردار کارکن لاہور ہائی کورٹ کے تازہ فیصلے کے بعد اب کافی ریلیکس ہو چکے ہیں۔ جگہ جگہ انٹرویو دیے جا رہے ہیں، سیلفیاں بن رہی ہیں اور یو ٹیوبرز عمران خان کی گرفتاری کو ناکام بنانے کے عمل کو فخر سے بیان کر رہے ہیں۔ زمان پارک کی گلیوں میں موجود ان احتجاجی کارکنوں میں کوئی خاتون یا کم سن بچے موجود نہیں ہیں۔ ان میں ایک معقول تعداد صوبہ کے پی اور پاکستان کے دیگر علاقوں سے آئی ہوئی ہے۔

اگرچہ زمان پارک میں ہونے والی تازہ شیلنگ کو کئی گھنٹے ہو چکے ہیں لیکن وہاں کی فضا میں اس کے تکلیف دہ اثرات اب بھی محسوس ہو رہے ہیں۔ عمران خان بدھ کے روز تھوڑی دیر کے لیے اپنے گھر کے بیرونی دروازے تک آئے اور انہوں نے ہاتھ ہلا کر کارکنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ زمان پارک کے علاقے میں آنسو گیس سے بچنے کے لیے ماسک اور پانی کی بوتلیں مفت تقسیم کی جا رہی ہیں۔ بہت سے کارکنوں کے ہاتھوں میں ایسے ڈنڈے موجود ہیں جن پر پی ٹی آئی کے پرچم کے رنگ پینٹ کئے گئے ہیں۔  

 حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ایک مبینہ آڈیو لیک کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے پارٹی ٹکٹ کے خواہش مند سیاست دانوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقوں سے لوگ لے کر زمان پارک پہنچیں۔

زمان پارک میں تشدد کا ذمہ دار کون ہے؟

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ کار بے نظیر شاہ نے بتایا کہ زمان پارک آپریشن کے سیاسی اثرات بہت نمایاں ہیں ۔ اس سے عمران خان کو سیاسی فائدہ ہوا ہے۔ وہ اپنے کارکنوں کو متحرک رکھے ہوئے ہیں اور لوگ ان کے بیانیے کو پورے میڈیا کے ذریعے سن رہے ہیں۔ بے نظیر شاہ سمجھتی ہیں کہ زمان پارک آپریشن کی ٹائمنگ درست نہیں تھی کیونکہ ظلے شاہ والے واقعے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے کارکن پہلے ہی بہت چارجڈ تھے۔ اس لیے اس آپریشن کے نتیجے میں غصے سے بپھرے ہوئے ان کارکنوں نے پولیس کو پسپا کرکے جو ردعمل دیا وہ حکومت سمیت بہت سے لوگوں کے لئے حیران کن تھا۔ عمران خان کے میڈیا سیل نے ویڈیوز اور تصویروں کے ذریعے سوشل میڈیا پر کہانیاں سنائیں انہوں نے عام لوگوں کے ذہنوں کو بھی متاثر کیا۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا زمان پارک آپریشن پاکستان تحریک انصاف کے ووٹ بنک میں بھی اضافے کا باعث بنا ہے۔ بے نظیر شاہ کا کہنا تھا کہ بالکل نہیں۔ ان کے خیال میں الیکشن جیتنے کے عمل میں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ پارٹی کے ووٹ بنک کے علاوہ امیدوار کی مقبولیت اور عوامی رابطہ بھی اہمیت رکھتا ہے۔ ہمارے ہاں برادری سسٹم سمیت کئی فیکٹرز کام کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے پاس نون لیگ کے مقابلے کے لیے سینٹرل پنجاب میں بڑی تعداد میں اچھے امیدوار نہیں ہیں۔ اس لیے بہتر سوشل میڈیا یا اچھی میڈیا کوریج کا اثر تو ہوتا ہے لیکن یہ انتخابات میں کامیابی کا واحد ذریعہ نہیں ہے۔