1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریپ بطور ہتھیار، خصوصی کانفرنس شروع

امجد علی10 جون 2014

منگل دَس جون سے برطانوی دارالحکومت لندن میں شروع ہونے والی ایک چار روزہ کانفرنس اپنی نوعیت کا اب تک کا وہ سب سے بڑا اجتماع ہے، جس کا مقصد مسلح تنازعات کے دوران جنسی تشدد کے واقعات کو روکنا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CFQf
تصویر: picture-alliance/dpa

اس کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری سمیت ایک سو ممالک سے آئے ہوئے سینیئر حکام بھی شرکت کر رہے ہیں۔ ادکارہ انجلینا جولی اور برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ کی میزبانی میں لندن کے ایکسل سینٹر میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں نو سو ماہرین، غیر سرکاری تنظیمیں، متاثرین اور مذہبی رہنما بھی شریک ہو رہے ہیں۔

لندن کے اخبار ’ایوننگ اسٹینڈرڈ‘ میں جان کیری نے لکھا ہے، اس کانفرنس کے شرکاء کوشش کریں گے کہ ’جنسی تشدد قصہء پارینہ بن کر رہ جائے‘۔ کیری کے مطابق ’ہر ملک جنسی تشدد کی لپیٹ میں ہے اور جنسی تشدد کے واقعات ہماری پوری انسانیت کی تذلیل کرتے ہیں‘۔

برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کی خصوصی سفیر انجلینا جولی دس جون کو لندن کانفرنس میں افتتاحی تقاریر کرتے ہوئے
برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کی خصوصی سفیر انجلینا جولی دس جون کو لندن کانفرنس میں افتتاحی تقاریر کرتے ہوئےتصویر: Reuters

کیری کے مطابق مسلح تنازعات میں روا رکھے جانے والے جنسی تشدد کو ایک بڑا بین الاقوامی جرم سمجھا جانا چاہیے اور کسی بھی حکومت کو اس طرح کے گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو پناہ دینے سے انکار کر دینا چاہیے۔

برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ کے مطابق انجلینا جولی کی فلم ’اِن دی لینڈ آف بلڈ اینڈ ہنی‘ دیکھ کر اُنہیں پہلی مرتبہ یہ احساس ہوا تھا کہ یہ مسئلہ کتنا سنگین ہے۔ تب سے ہیگ اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کی خصوصی سفیر انجلینا جولی اس مسئلے کی جانب عالمی رائے عامہ کو متوجہ کرنے کے لیے متعدد بار ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو اور بوسنیا کے دورے کر چکے ہیں۔

انجلینا جولی کی فلم ’اِن دی لینڈ آف بلڈ اینڈ ہنی‘ سے لیا گیا ایک منظر
انجلینا جولی کی فلم ’اِن دی لینڈ آف بلڈ اینڈ ہنی‘ سے لیا گیا ایک منظرتصویر: AP

2011ء میں بننے والی یہ فلم انجلینا جولی کی بطور ہدایتکارہ پہلی فلم تھی، جس میں دو عشرے پہلے کی جنگ بوسنیا کے پس منظر میں دو پیار کرنے والے دلوں کی داستان پیش کی گئی تھی۔ ہیگ کہتے ہیں کہ اس جنگ کے دوران اندازاً پچاس ہزار خواتین کا ریپ کیا گیا تھا۔

جنسی تشدد کو 1994ء میں روانڈا میں ہونے والے قتل عام کے دوران بھی ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق تب ہُوتو ملیشیا کے ارکان نے تُوتسی اقلیت کی تقریباً پانچ لاکھ خواتین کی آبروریزی کی۔ ایسے زیادہ تر واقعات میں اِس جرم کا ارتکاب کرنے والے ان خواتین کو ہلاک نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ اُنہیں حاملہ بنانا چاہتے تھے۔ ایسی ہی ایک خاتون ’انجیلیق کے‘ ہے، جسے ہوتو ملیشیا کے ارکان اغوا کر کے لے گئے اور دو مہینوں تک اُسے اپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے۔ بیالیس سالہ انجیلیق کہتی ہے:’’یہ ایک ایسی کہانی ہے، جسے برداشت کرنا آسان نہیں ہے۔ بہت مشکل ہے۔ جو کچھ میرے ساتھ ہوا، وہ کوئی تبھی کر سکتا ہے، جب وہ انسانی احساسات و جذبات سے عاری ہو۔‘‘

یہ تصویر افریقی ریاست کانگو کے شہر گوما میں ریپ کا نشانہ بننے والی خواتین کی بحالی کے ایک کلینک میں لی گئی
یہ تصویر افریقی ریاست کانگو کے شہر گوما میں ریپ کا نشانہ بننے والی خواتین کی بحالی کے ایک کلینک میں لی گئیتصویر: picture-alliance/ dpa

جرمنی سے اس کانفرنس میں شرکت کرنے والوں میں امدادی تنظیم میڈیکا مونڈیالے کی بانی مونیکا ہاؤزر بھی شامل ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے اس کانفرنس کو ایک تاریخی اقدام سے تعبیر کیا:’’یہ حقیقی معنوں میں ایک بین الاقوامی کوشش ہے، جس میں ہمارے جیسے ماہرین کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے اور بالخصوص جنگوں اور تنازعات کی زَد میں آئے ہوئے علاقوں سے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے، یہاں ہر طرح کی معلومات کا تبادلہ ہو گا اور مل کر اس بات پر غور کیا جائے گا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے آگے کیا کچھ کیا جانا چاہیے۔‘‘

اس کانفرنس میں ریپ کے واقعات کی تحقیقات کو بہتر بنانے، جنسی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو کٹہرے میں لانے اور متاثرہ خواتین کو بہتر انداز میں مدد اور تعاون فراہم کرنے پر بات کی جا رہی ہے۔ کانفرنس کے اختتام پر ایک بین الاقوامی دستاویز میں جنسی تشدد کے خاتمے سے متعلق تجاویز شامل کی جائیں گی۔

اسی کانفرنس کے دوران جمعرات کو ولیم ہیگ انتہا پسند تنظیم بوکو حرام کی سرگرمیوں کے بارے میں ایک اجلاس کی میزبانی کریں گے، جس میں نائجیریا اور دیگر ہمسایہ ممالک کے وُزرائے خارجہ بھی شریک ہوں گے۔ اس تنظیم کے ارکان کی جانب سے سینکڑوں اسکول طالبات کے اغوا نے بحران زدہ علاقوں میں خواتین کے خلاف تشدد کے مسئلے کو عالمی رائے عامہ کی توجہ کا مرکز و محور بنا دیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید