1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ری سائیکل شُدہ پلاسٹک کوڑے سے بنی باڑیں

13 جون 2012

دنیا بھر میں شہروں کے لیے کوڑا کرکٹ ایک بہت بڑے مسئلے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ افریقی ریاست کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں کوڑے کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کا ایک انوکھا منصوبہ جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/15DEV
تصویر: picture-alliance/ZB

نیروبی کی سب سے بڑی کچی بستی کِبیرا ہے، جس کے اردگرد کوڑے کرکٹ کا ایک بڑا ڈھیر ہے، جس میں شیمپو کی خالی بوتلوں، تھیلوں اور پرانے کنستروں سمیت پلاسٹک سے بنی بہت سی چیزیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ نیروبی کے شہری ہر روز جتنا کوڑا کرکٹ پیدا کرتے ہیں، اُس میں سے صرف پلاسٹک کے کوڑے کی مقدار ہی تقریباً تین ہزار ٹن بنتی ہے۔

محکمہء ماحولیات کے ایوب ماچاریا کے مطابق اس کوڑے کا محض کچھ حصہ ہی شہر سے باہر بنے کوڑا گھر تک پہنچ پاتا ہے۔ پلاسٹک کی زیادہ تر چیزیں شہر کی گلیوں ہی میں بنے گڑھوں میں یا پھر اس کچی بستی کے اردگرد بنے ڈھیر پر پھینک دی جاتی ہیں:’’اس ملک میں کوڑے کرکٹ کے حوالے سے عام لوگوں کا طرزِ عمل ایک بڑا مسئلہ ہے۔ آپ شہر میں نکل جائیں تو آپ کو جگہ جگہ کوڑا نظر آئے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کوڑا ٹھکانے لگانے کے کوئی معقول مراکز ہی نہیں ہیں۔‘‘

بعض مقامات پر کوڑے کرکٹ کو غیر ذمے دارانہ طریقے سے جلا دیا جاتا ہے
بعض مقامات پر کوڑے کرکٹ کو غیر ذمے دارانہ طریقے سے جلا دیا جاتا ہےتصویر: DW

’ایکو پوسٹ‘ کے نام سے دو سال پہلے شروع کیا جانے والا ایک ماحولیاتی منصوبہ اس صورت حال کو بدلنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ چارلس کالاما اور اُن کی ایک ساتھی کاروباری خاتون کے قائم کردہ اس ادارے کا کام پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ جمع کرنا اور اُسے پھر سے قابل استعمال بنانا ہے:’’ہم ہر مہینے تقریباً چالیس ٹن پلاسٹک ری سائیکل کرتے ہیں۔ یہ سب وہ کوڑا کرکٹ ہے، جو دوسری صورت میں کہیں نکاسیء آب کے پائپوں میں یا گلیوں میں پڑا رہتا ہے۔‘‘

پلاسٹک مصنوعات کو اس چھوٹی سی فیکٹری میں پہلے کاٹ کر پُرزے پُرزے کیا جاتا ہے اور پھر پگھلا کر بڑے بڑے بلاکوں کی شکل دے دی جاتی ہے۔ اس سے آگے کا سارا کام ہاتھ سے کیا جاتا ہے۔

کوڑے کرکٹ کو رقی سائیکلنگ کے عمل سے گزار کر دوبارہ قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے
کوڑے کرکٹ کو رقی سائیکلنگ کے عمل سے گزار کر دوبارہ قابل استعمال بنایا جا سکتا ہےتصویر: Travis Lupic

ہتھوڑے کی مدد سے ان بلاکوں کو ایک خاص شکل دی جاتی ہے تاکہ بعد میں ان سے تختے بنائے جا سکیں۔ پلاسٹک کے یہ تختے بعد ازاں لکڑی کے تختوں کی جگہ باڑ تیار کرنے میں استعمال کیے جاتے ہیں اور یوں باڑوں وغیرہ کے لیے درخت نہیں کاٹنے پڑتے۔ اس منصوبے میں چارلس کی ساتھی خاتون لورنا رُوٹو اس ماحول دوست طریقے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہتی ہیں:’’اگر ہم پلاسٹک کے دَس تختے تیار کر لیں تو گویا ہم نے ایک پورے قد کے درخت کو گرنے سے بچا لیا۔ اب تک ہم نے اس طرح سے چھ ہزار درخت بچائے ہیں۔‘‘

یہ چھوٹا سا ادارہ اپنی سرگرمیوں کو توسیع دینا چاہتا ہے لیکن اُن کے پاس مناسب ساز و سامان کی کمی ہے۔ اس ادارے نے پلاسٹک کو بلاکس کی شکل دینے کے لیے ایک پرانی جرمنی ساختہ مشین خرید رکھی ہے، جو 1973ء سے استعمال میں ہے۔

مشکلات کے باوجود یہ ادارہ روزگار کے مواقع بھی فراہم کر رہا ہے۔ اس فیکٹری میں پچیس افراد کام کرتے ہیں، جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ پلاسٹک اکٹھا کرنے کا کام تقریباً دو سو کارکن کرتے ہیں، جن کی بڑی تعداد پسماندہ بستی کے باسیوں کی ہوتی ہے۔

A. Diekhans/aa/km