1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا کے ہر پانچویں لڑکے کی شادی بچپن میں ہی کر دی جاتی ہے

7 جون 2019

اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف کے مطابق دنیا میں ہر پانچویں لڑکے کی شادی کم عمری میں ہی کر دی جاتی ہے۔ اٹھارہ برس کی عمر سے قبل ہی دلہا بنا دیے جانے والے ایسے بچوں کی سالانہ تعداد ایک سو پندرہ ملین بنتی ہے۔

https://p.dw.com/p/3K1ws
تصویر: Getty Images/AFP

اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں جن لڑکوں کو بالغ ہونے سے پہلے ان کے بچپن میں ہی شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے، انہیں دراصل مختلف سماجی روایات کے نام پر اور متنوع وجوہات کے باعث ان کے بچپن سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

Nigeria Proteste gegen Kinderehe
تصویر: picture alliance/AP Photo

یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کی طرف سے جمعہ سات جون کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ بچپن کی شادیاں ایک ایسا سماجی مسئلہ ہیں، جو صرف لڑکیوں کو ہی نہیں بلکہ لڑکوں کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ اس طرح ہر سال یہ 115 ملین یا تقریباﹰ ساڑھے گیارہ کروڑ لڑکے نہ صرف بہتر تعلیم کے حصول سے محروم رہ جاتے ہیں بلکہ انہیں اپنے لیے روزگار کے بہتر مواقع کی تلاش میں بھی بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔

اپنی نوعیت کی اولین رپورٹ

عالمی ادارہ برائے بہبود اطفال کی بین الاقوامی سطح پر سات جون کو جاری کردہ اس نئی رپورٹ کے مطابق تازہ ترین مطالعاتی جائزے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ عالمی سطح پر ہر پانچویں لڑکے کی شادی اس کی 15 ویں سالگرہ سے بھی پہلے کر دی جاتی ہے۔ یہ مطالعاتی جائزہ دنیا کے 82 ممالک میں مکمل کیا گیا اور ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اس میں اس امر کا جائزہ لیا گیا کہ بین الاقوامی سطح پر کم عمر لڑکوں کی شادیوں کی صورت حال کیا ہے۔

Bangladesch Kinderehe
تصویر: Getty Images/A. Joyce

اس جائزے کے مطابق دنیا میں کم عمر لڑکوں کی سب سے زیادہ شادیاں وسطی افریقی جمہوریہ میں کی جاتی ہیں، جہاں یہ تناسب 28 فیصد بنتا ہے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر نکاراگوآ کا نام آتا ہے جہاں یہ شرح 19 فیصد بنتی ہے جبکہ مڈغاسکر میں یہی شرح 13 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

تعلیم اور روزگار بھی متاثر

یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہینریئٹا فور نے اس بارے میں اپنے بیان میں زور دے کر کہا کہ کم عمر بچیوں کی طرح کم عمر بچوں کی شادیاں بھی ان کی تعلیم اور عملی زندگی میں روزگار کے بہتر مواقع کے لحاظ سے منفی اثرات کا سبب بنتی ہیں اور ایسے بچوں کو یوں ان کے بچپن سے محروم کر دینے کی روک تھام انتہائی ضروری ہے۔

انہوں نے کہا، ''کم عمر بچوں کی شادیاں کر کے ان کے کندھوں پر بالغ انسانوں جیسی وہ ذمے داریاں ڈال دی جاتی ہیں، جن کے لیے وہ تب تک تیار نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ بچپن کی شادیاں ان بچوں کو جلد ہی والدین بھی بنا دیتی ہیں، جس کے نتیجے میں ان پر وقت سے بہت پہلے ہی اپنے بچوں کی کفالت کا بوجھ بھی پڑ جاتا ہے۔‘‘

765 ملین شادی شدہ بچے

اس جائزے کے مطابق عالمی سطح پر ابھی تک یہ تناسب زیادہ ہے کہ کم عمری میں شادیوں کے حوالے سے لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی صورت حال زیادہ تشویش ناک ہے۔ یونیسیف کے مطابق اس وقت 20 سے لے کر 24 برس تک کی عمر کی خواتین میں سے 20 فیصد یا ہر پانچویں خاتون ایسی ہوتی ہے، جس کی شادی 18 سال سے بھی کم عمر میں ہو چکی ہوتی ہے۔

اس کے برعکس اس وقت 20 سے 24 سال تک کی عمر کے مردوں میں 18 برس سے بھی کم عمر میں شادی شدہ ہونے کا تناسب ہر 30 مردوں میں سے ایک بنتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر اس وقت دنیا میں نابالغ لیکن شادی شدہ لڑکوں اور لڑکیوں کی مجموعی تعداد تقریباﹰ 765 ملین یا ساڑھے 76 کروڑ بنتی ہے۔

اقوام متحدہ کے اس ادارے نے اس بات کو اپنا ایک مرکزی ہدف بنا رکھا ہے کہ دنیا بھر میں سن 2030ء تک بچوں کی کم عمری کی شادیوں پر مکمل پابندی عائد کر دی جانا چاہیے۔

م م / ع ا /  روئٹرز، ڈی پی اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں