1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کم سنی کی شادی مسئلہ تو ہے‘ مگر حل کیا ہے؟

عاطف توقیر عاطف بلوچ
9 مئی 2019

کم سنی کی شادی ایک عالمی مسئلہ قرار دیا جاتا ہے۔ قاہرہ کی الازہر یونیورسٹی کی طرف سے اس حوالے سے ایک فتویٰ بھی جاری کیا گیا لیکن مسلم دنیا اس معاملے پر متفق نہیں ہو سکی۔

https://p.dw.com/p/3IDRm
Indien Kinderehe
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Solanki

کم عمری میں بچوں کی شادی کا مسئلہ ایک مرتبہ پھر اس وقت پاکستان میں خبروں کی سُرخی بنا، جب ایوان زیریں نے شادی کی عمر سولہ سے بڑھا کر اٹھارہ برس کرنے کی تجویز پرگرما گرم بحث کی اور یہ معاملہ التوا میں پڑ گیا۔ پاکستان میں مذہبی جماعتوں کی اپوزیشن کے باوجود سینٹ نے یہ مجوزہ قانون پاس کر دیا تھا، جسے بعد ازاں ایوان زیریں بحث کے لیے بھیجا گیا تھا۔

ایوان زیریں میں اس مجوزہ بل کو حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کی طرف سے بھی شدید اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑا۔ سینٹ میں اس بل کو پیش کرنے والی شیری رحمان تھیں، جنہوں نے بعد ازاں اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایوان زیریں میں اس مون کا التوا میں چلے جانا ’ایک افسوس ناک امر‘ ہے۔

 پاکستان کے ایوان زیریں میں یہ مجوزہ قانون حکمران پارٹی سے تعلق رکھنے والے ہندو رکن رامیش کمار نے پیش کیا تھا۔ ایوان زیریں میں انہی کی پارٹی کے کئی ممبران نے اس مجوزہ بل کو ’غیر اسلامی‘ قرار دے دیا۔ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس مجوزہ قانون کو اسلامی نظریاتی کونسل بھیجا جائے تاکہ وہ پرکھ سکے کہ آیا یہ اسلام کے مطابق ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے کچھ اراکین نے البتہ اس مجوزہ بل کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ ان میں وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری اور وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری سرفہرست ہیں۔ فواد چوہدری نے کہا کہ اس کی مخالفت ’خوفزدہ‘ کرنے کے مترادف ہے جبکہ شیریں مزاری نے کہا کہ اگر الازہر یونیورسٹی اس بارے میں فتویٰ جاری کر رہی ہے تو یہ غیر اسلامی کیسے ہو سکتا ہے؟

پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں فعال سماجی کارکن ماریہ اقبال ترانہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ’’ کم عمری کی شادی دراصل دوران زچگی ماؤں کی ہلاکت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بالخصوص دیہی علاقوں میں یہ معاملہ ہر دوسرے گھر کے لیے سنگین ہے کیونکہ وہاں صحت کی بنیادی سہولتیں مناسب نہیں ہیں‘‘۔

پاکستان کے معروف اینکر پرسن اور حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ مجوزہ قانون مکمل طور پر اسلامی تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر کے مطابق اس مجوزہ بل کے خلاف حکمران پارٹی کے اندر ہی تقسیم دکھائی دیتی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ اگر یہ قانون پاس ہو بھی جاتا ہے تو اس پر عملدرآمد ایک مشکل کام ہو گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ صوبہ سندھ میں یہ قانون ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس پر مؤثر طریقے سے عمل ہو رہا ہے؟

جبران ناصر کے مطابق صرف قانون سازی ہے اس سنگین مسئلے کا حل نہیں بلکہ ان سماجی و اقتصادی وجوہات کا سدباب یقینی بنانا ہو گا، جن کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کی شادی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

دوسری طرف شیریں رحمان کا اصرار ہے کہ قانون سازی پہلا قدم ہو گا۔ انہوں نے کہا پہلے اس قانون کو ایوان زیریں سے منظور کرانا ہو گا جبکہ اس پر علمدرآمد دوسرا قدم ہو گا۔ دنیا میں چائلڈ میرج سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے خطوں میں افریقہ اور جنوبی ایشیا سرفہرست ہیں۔ اقوام متحدہ کی خصوصی ادارہ برائے اطفال یونیسیف کے اعدادوشمار کے مطابق  سالانہ بنیادوں پر اٹھارہ سال سے کم عمر تقریبا بارہ ملین لڑکیوں کی شادی کی جاتی ہے۔ ان میں سے اڑتیس فیصد کا تعلق زیریں صحارا کے علاقوں سے ہوتا ہے۔

جنوبی ایشیا میں کم سنی کی شادیوں کی شرح میں کمی نوٹ کی گئی ہے لیکن پھر بھی اس خطے کے ممالک میں یہ معاملہ سنگین بتایا جاتا ہے۔ اس خطے میں بنگلہ دیش میں بچوں کی شادی کی شرح  سب سے زیادہ ہے، جو 59 فیصد بنتی ہے۔ بھارت میں یہ شرح 47 فیصد، افغانستان میں 35 فیصد، نیپال میں 37 فیصد جبکہ پاکستان میں 26 فیصد بنتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں