1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخوا میں ٹوٹے ہوئے خاندان اور ’بیواؤں کے دیہات‘

14 مئی 2023

پاکستان کے متعدد دیہات ایسے بھی ہیں، جہاں خاندان صرف ٹوٹے نہیں بلکہ ریزہ ریزہ ہو کر بکھر چکے ہیں۔ ایسے دیہات میں بیواؤں کی تعداد ناقابل یقین حد تک زیادہ ہے اور خاندانوں کی کفالت کا بوجھ ان خواتین کے کندھوں پر آن پڑا ہے۔

https://p.dw.com/p/4R8fE
Pakistan Peshawar | Familienangehörige durch Taliban getötet
تصویر: Saba Rehman/DW

امریکہ نے سن 2001 میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تھا لیکن یہ جنگ پھر افغانستان کی سرحدوں کے اندر تک ہی محدود نہیں رہی۔ پاکستان اس جنگ میں امریکہ کا اتحادی بنا اور پھر شورش نے اس ملک کے شمال مغربی علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑائی اور حملوں میں سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں کو پہنچا اور اس خطے میں سویلین ہلاکتوں کی تعداد تقریباً 30 ہزار بنتی ہے۔

اس لڑائی کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں خواتین بیوہ ہو گئیں۔ پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقوں کے کچھ دیہات ایسی خواتین سے بھرے پڑے ہیں، جنہیں بے پناہ معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

'اس جنگ نے مجھ سے سب کچھ چھین لیا‘

زاہدہ بی بی کا تعلق جنوبی وزیرستان کے اس قبائلی علاقے سے ہے، جس کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ اسی علاقے کو پاکستانی طالبان کی جائے پیدائش بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس علاقے نے ایسے متعدد غیر ملکی جنگجوؤں کو بھی پناہ دی، جو امریکی حملے کے دوران افغانستان سے فرار ہو کر ادھر آ گئے تھے۔ ان میں عرب، چیچن اور ازبک بھی شامل تھے۔

بیواؤں کا عالمی دن اور معاشرے کا فرسودہ رویہ

زاہدہ بی بی کے والد ایک مقامی قبائلی رہنما تھے، جنہوں نے غیر ملکی عسکریت پسندوں کی موجودگی کے خلاف شدید مزاحمت کی تھی اور انہیں نکالنے کے ایسے ہی مطالبات نے طالبان کو ان کے خلاف کر دیا تھا۔ 23 اگست 2009 کو زاہدہ بی بی کے والد، ان کے شوہر، چچا اور بڑے بھائی کو ایک ساتھ قتل کر دیا گیا۔

زاہدہ بی بی کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”اس ایک واقعے نے میرے خاندان کی چار خواتین کو بیوہ کر دیا، ہماری زندگیاں تباہ ہو گئیں۔" زاہدہ بی بی آج تک اس غم کو فراموش نہیں کر پائیں اور انہیں ابھی تک ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔ حالیہ کچھ عرصے سے بی بی کے علاقے میں پاکستانی طالبان دوبارہ سر اٹھا چکے ہیں اور اب انہیں اپنے بیٹے کی فکر لاحق رہتی ہے کیوں کہ وہ ایک پولیس افسر ہے۔ بی بی کو اس خاندان کی دیگر بیواؤں اور یتیموں کی دیکھ بھال بھی کرنا پڑی۔ حکومت کی جانب سے انہیں بغیر کسی مالی امداد کے چھوڑ دیا گیا تھا۔

اس لڑائی کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں خواتین بیوہ ہو گئیں
اس لڑائی کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں خواتین بیوہ ہو گئیںتصویر: Jafar Khan/AP Photo/picture alliance

یہ صرف ایک خاندان کی کہانی نہیں ہے۔ پاکستان کے شمالی مغربی علاقوں میں ایسی کہانیاں جگہ جگہ بکھری پڑی ہیں۔

جنوبی وزیرستان کی ایک کارکن اور مقامی کونسلر آسیہ بی بی کہتی ہیں کہ طالبان کی شورش اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ان کے علاقے کے لوگوں کے لیے تباہ کن تھی۔ ان کے مطابق سب سے زیادہ متاثر خواتین ہوئیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ صرف ایک گاؤں کوری کوٹ میں 200 سے زائد خواتین بیوہ ہوئیں۔

 آسیہ بی بی کا مزید کہنا تھا، ”اسے اب بیواؤں کا گاؤں کہا جاتا ہے، ان غریب خواتین کا انحصار اب وفاقی حکومت کے فلاحی پروگراموں یا خیرات پر ہے۔"

'ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے‘

دہشت گردی کے خلاف جنگ، طالبان کی شورش اور ڈرون حملوں سے متاثر ہونے والی زیادہ تر خواتین کا تعلق غریب خاندانوں سے ہے لیکن معاشرے کے کئی بااثر خاندان بھی جنگ کی ہولناکیوں سے محفوظ نہیں رہے۔ سن 2012 میں ایک خودکش حملے میں خیبر پختونخوا کے ایک سینئر وزیر بشیر بلور ہلاک ہو گئے۔ پھر سن 2018 میں ان کا بیٹا بھی ایک خودکش حملے میں ہلاک ہو گیا۔ ان دونوں نے طالبان کی شدید مزاحمت کی تھی۔

زیادہ اولاد کی خواہش اور ماؤں کی ہلاکتیں

مسرت احمد زیب نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کے آبائی شہر سوات سے تعلق رکھنے والی ایک سابق رکن پارلیمنٹ ہیں۔ ایک وقت تھا کہ طالبان نے اس علاقے پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ مسرت احمد زیب کے بااثر خاندان نے بھی عسکریت پسندوں کے خلاف شدید مزاحمت کی تھی۔ وہ بھی طالبان کی شورش کے دوران اپنے شوہروں سے محروم ہونے والی ہزاروں بیواؤں کے لیے امداد کی کمی پر افسوس کا اظہار کرتی ہیں۔

انہوں نے ایک مرتبہ پھر حکومت سے یتیم بچوں کی مدد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ ان کے علاقے میں صرف چند یتیم خانے ہیں۔ ان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہناتھا، ”بیواؤں کو اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنا ہوتی ہے۔ اگر مزید یتیم خانے ہوں تو وہاں بچوں کو رجسٹر کیا جا سکتا ہے، ان خواتین کو روزی روٹی کمانے کے لیے وقت فراہم کیا جا سکتا ہے۔"

پشاور میں مقیم ایک تجزیہ کار ڈاکٹر سید عالم محسود کے مطابق شورش کے دوران مردوں کو ختم کر دیا گیا۔ ان کے مطابق ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ ایک ہی خاندان کے پانچ یا نو سے زیادہ مرد اراکین کو ہلاک کر دیا گیا، جس سے بہت سی خواتین بیوہ ہو گئیں۔

 ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”ریاست ایسی خواتین کی حالت زار کی ذمہ دار ہے۔ اُن جنونیوں کی حمایت کرنا ریاستی پالیسی تھی، جنہوں نے میرے صوبے اور ملک کے کچھ حصوں کو بربریت کی کھائی میں دھکیل دیا۔ "

وہ کہتے ہیں، ”ریاست کی اس پالیسی کا خمیازہ خواتین کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔"

ایس خان، اسلام آباد / ا ا / ج ا