1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیواؤں کا عالمی دن اور معاشرے کا فرسودہ رویہ

23 جون 2020

وہ سکتے کے عالم میں بان سے کَسی ہوئی اس چارپائی کے ایک پائے پر سر ٹِکا کر بیٹھی تھی، جس پر سفید کفن میں لپٹا اس کے شوہر کا ٹھنڈا وجود آخری دیدار کے لیے رکھا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/3eBLZ
Rabia Bugti
تصویر: privat

آنسوؤں سے اس کا منہ اور گریبان تر تھا۔ اس کے نینوں میں بسے کاجل کے سیاہ دھارے اس کے چہرے کے ساتھ ساتھ اس کی تقدیر پر بھی بہنے لگے تھے اور ان کالی لکیروں نے اس کے سنہرے خوابوں کی ریشم کو بھی مٹیالا کر ڈالا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں پڑی عنابی رنگ کی چوڑیاں، جو اس کے خاوند نے بہت چاہ سے اس کو خود پہنائی تھیں، انہیں توڑنے کی ذمہ داری پڑوسن نے بخوبی اپنے سر لے لی تھی۔  وہ جو اب تک مکمل طور پر اپنے شوہر کے جہانِ فانی سے کوچ کر جانے کی خبر کو قبول ہی نہیں کر پائی تھی اسے کیا معلوم تھا کہ آس پاس چہ مگوئیاں شروع ہو چکی تھیں۔ اب کیا کرے گی؟ یہ پہاڑ جیسی زندگی اکیلے کیسے گزارے گی؟ بچوں کا کیا ہوگا؟ عدت میں کہاں بیٹھے گی؟ سسرال رہے گی یا میکے جائے گی؟  

یہ ہے ایک بیوہ کی زندگی کی حقیقت، بیوگی، جس کا احساس ہی کڑی دھوپ میں بے یار و مدد گار جل جانے جیسا ہوتا ہے۔ عورت کے لئے صرف معاشی اور معاشرتی مسائل ہی نہیں لے کر آتی بلکہ لوگ اس کی ذاتیات اور اخلاقیات پر سوالات اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ کونسے رنگ پہننے ہیں، سرخی اور پاؤڈرکی مقدار کتنی اور کیوں ہے، خوشبو کا استعمال کتنا کیا ہے، حتیٰ کہ تقریبات میں شرکت کرنی ہے یا نہیں اور اگر کر بھی لی تو سہاگنوں کی طرح دلہن کے آس پاس نہیں رہنا کہیں نحوست نہ پھیلا دے۔ بیواؤں کے لئے ایسے بیشتر قوائد و ضوابط لوگ طے کرتے ہیں۔ صرف ہمارے ہاں ہی نہیں تمام دقیانوسی معاشروں میں ہوتا آ رہا ہے، جہاں عورت کو جینے کا حق صرف رشتوں کی نسبت سے ہوتا ہے۔ سسرال سے جنازہ ہی اٹھے گا سے لے کر لوگ کیا کہیں گے، جیسے جملوں کی بیڑیاں اس ماحول میں ایک بیوہ کا جینا دوبھرکر دیتی ہیں۔

کچھ روایتی حلقوں میں توعورت کو شوہرکی وفات کے بعد باقاعدہ محرومی اور تذلیل سہنا پڑتی ہے۔ شریکِ سفر کے بچھڑ جانے کا دکھ الگ اور جو دائرہ حیات اس پر تنگ کر دیا جاتا ہے، اس گھٹن کا احساس ہی مکروہ ہے۔ ایسے حالات میں افسردگی کا لبادہ بھی ان کے لئے لازم و ملزوم ہوتا ہے۔ ایک شخص کی موت کو ایسا روگ بنا دیا جاتا ہے، جس کی مہر، ان کی زندگی کی پیشانی پرثبت کر دی جاتی ہے اوراس کا بوجھ انہیں ہر حال میں ڈھونا پڑتا ہے۔

پاکستان کی چار ملین سے زائد بیوگان، سماجی محرومی سے عبارت زندگی

وہ ہنس بول نہیں سکتیں، اچھی غذا سے محروم کر دی جاتی ہیں۔ منحوس تصورکی جاتی ہیں اور بھارت جیسے بعض ممالک میں تو گھر بدر بھی کر دی جاتی ہیں، جہاں وہ سر کے بال منڈوا کر بیواؤں کے لئے بنے ہوئے مخصوص مکانوں میں رہتی ہیں اورتا دمِ گور وہیں رہنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ بعض رسومات میں تو اس کی نوبت بھی نہیں آتی کیونکہ عورت کو ستی کر دینے جیسی فرسودہ روایات کے پیروکار اب بھی موجود ہیں، جہاں عورت کو شوہر کی لاش کے ساتھ جلا کر اسے پاک کر دینے کا تصور ایک عام سی بات ہے۔

آج بیواؤں کے عالمی دن کے موقع پراس بات کو تسلیم کر لیجیے کہ بیواؤں کا کوئی دن نہیں ہوتا۔ کیونکہ انہیں ہر دن کی مانند یہ دن جینے کا حق بھی میسر نہیں ہے۔ حالانکہ نو سال سے ہر 23 جون کو یہ دن منایا جاتا ہے لیکن باوجود اس کے، اس ضمن میں کو ئی خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی ہے، ماسوائے اس بات کے کہ ایک عالمی دن مقرر کر دیا گیا ہے، جس کا علم بھی چیدہ چیدہ لوگوں کو ہی ہوگا اور ان میں دنیا سے قطع تعلق ہونے پر مجبور کی گئی بیواؤں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہو گی۔

خودکشی کرنے والے لاکھوں بھارتی کسانوں کی پریشان حال بیوائیں

بیوگی کو آج بھی عورت پر ایک اَن مِٹ داغ کی طرح تصور کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ہونے والے معاملات آج بھی اتنے ہی تکلیف دہ ہیں، جتنے ہمیشہ سے رہے ہیں۔ ان روایتی قدروں میں جہاں وراثت میں حصہ یا نان نفقہ تو خیرایک خوابِ ناتمام ہی رہتا ہے۔ جو تھوڑی بہت امداد احباب کی طرف سے ہوتی ہے، وہ بھی ہمدردی سے عاری ہوتی ہے اور اگر اس ماحول سے تنگ آکر ایک عورت خود اپنی زندگی کی گاڑی چلانے کا فیصلہ کرے تو طعنے تشنوں کی نوعیت میں شدت آجاتی ہے اور بات کردار کی سچائی تک پہنچنے میں دیر ہی کہاں لگتی ہے؟

اگر خدانخواستہ ایسے میں عورت دوسری شادی جیسا قدم اٹھانے کی ٹھان لے اور کوئی بھلا مانس کسی بیوہ کو اپنانے کی حامی بھر ہی لے، گو کہ ایسے بھلے مانسوں کی تعداد بھی گھٹتی ہی جارہی ہے تو جنسی ضرورتوں کا موضوع زیرِ بحث آ جاتا ہے۔

اس تمام معاملے میں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موت ایک نا گہانی آفت ہے، جو قدرت کی طرف سے معین ہے۔ اس لئےعورتوں کے ساتھ یہ ناقابلِ برداشت رویہ، گویا بیوہ ہونے والی عورت نے بذاتِ خود اپنے ہم سفر کی جان لی ہو، اب ختم ہونا چاہیے۔ بہت ضروری ہے کہ ہر معاشرہ بجائے مشکلات پیدا کرنے اور محرومیوں میں اضافہ کرنے کے ان بیواؤں کو نہ صرف قبول کرے بلکہ ان کے لیے آسانیوں کے راہ کھولے کیونکہ زندگی پر ان کا اتنا ہی حق ہے، جتنا کہ آپ کا ہے۔